پاکستان نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کو خاموشی سے کھڑا دیکھتا نہیں رہ سکتا اور اس کی علاقائی سالمیت کے خلاف کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔
یہ بات اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے جمعہ کو جاری ایک بیان میں کہی جس میں ایک روز قبل وزیراعظم نواز شریف کے دورہ سعودی عرب میں بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیل کا ذکر بھی کیا گیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے جمعرات کو سعودی عرب کا ایک روزہ دورہ کیا تھا جس میں بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی ان کے ہمراہ تھے۔
بیان کے مطابق ملاقاتوں میں پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر اپنی تشویش سے سعودی قیادت کو آگاہ کرتے ہوئے زور دیا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گرد گروپوں اور غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں خطے میں مزید عدم استحکام پیدا نہ ہونے دیا جائے۔
مزید برآں پاکستان نے ایک بار پھر یمن کی جائز حکومت کو حوثی باغیوں کی طرف سے ہٹائے جانے کی مذمت کی اور باغیوں کو اپنے زیر تسلط علاقوں کو خالی کر کے غیر مشروط طور پر حکومت کی بحالی کے لیے کی جانے والی سیاسی کوششوں کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
یمن میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں سعودی عرب نے اپنے خلیجی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور اس آپریشن میں شمولیت کے لیے اس نے پاکستان سے بھی رابطہ کیا۔
تاہم پاکستانی پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک قرارداد میں حکومت سے اس تنازع میں غیر جانبدار رہتے ہوئے مصالحتی کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔
حکومت بھی یہ کہتی آئی ہے کہ وہ سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت تیار ہے لیکن یمن میں اپنی فوجیں بھیجنے کا اس نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
رواں ہفتے ہی سعودی عرب نے یمن میں فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اہداف حاصل ہونے کے بعد اب وہاں سیاسی عمل کے ذریعے بحران کے حل کی حمایت کی جائے گی۔
حوثی باغیوں نے گزشتہ سال یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا اور اس وقت عرب دنیا کے اس پسماندہ ترین ملک میں خانہ جنگی کی سی صورتحال ہے۔
پاکستان نے یمن میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی میں معاونت کی پیشکش بھی کی ہے۔