سیوو دی چلڈرن کے غیر ملکی عملے کی پاکستان بدری

فائل فوٹو

تنظیم کے ترجمان نے بتایا کہ ملک میں اس وقت ان کے چھ غیر ملکی شہری مختلف منصوبوں سے منسلک ہیں اور وزارت داخلہ نے کوئی وجہ بتائے بغیر ان سب کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
پاکستان نے غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم ’سیوو دی چلڈرن‘ کے غیر ملکی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

تنظیم کے ترجمان غلام قادری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں اس وقت ان کے چھ غیر ملکی شہری سیوو دی چلڈرن کے منصوبوں سے منسلک ہیں اور وزارت داخلہ نے کوئی وجہ بتائے بغیر ان سب کو رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

’’ہمیں ٹیلی فون پر سرکاری حکم نامے کے بارے میں مطلع کرتے ہوئے کہا گیا کہ غیر ملکی عملہ دو ہفتوں کے اندر ملک چھوڑدے۔‘‘

ترجمان نے کہا کہ وزارت داخلہ کےحکام کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں سرکاری ڈیڈلائن میں چند ہفتوں کی توسیح کردی گئی ہے تاکہ تنظیم کے غیرملکی عملے کے ارکان کو واپس جانے کے لیے مناسب وقت مل سکے۔ اُنھوں نے غیر ملکیوں کی شناخت کے بارے میں کھل کر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

’’ان میں یورپی اورغیر یورپی ملکوں کے شہری شامل ہیں مگر سب کے سب امریکی نہیں ہیں۔‘‘

غلام قادری نے کہا کہ سیوو دی چلڈرن کے پاکستان میں لگ بھگ دوہزار مقامی ملازمین ہیں اس لیے غیر ملکی عملے کی ملک بدری سے جاری منصوبے متاثر نہیں ہوں گے۔

’’ہم نے پاکستان میں اپنے منصوبوں کو جاری رکھنے کا عزم کررکھا ہے جن سے 70 لاکھ سے زائد بچے اوراُن کے خاندان مستفید ہورہے ہیں۔‘‘

اطلاعات کے مطابق بچوں کے لیے فلاحی منصوبوں پر کام کرنے والی اس تنظیم پر الزام ہے کہ اُس نےایبٹ آباد میں امریکہ کو مطلوب اُسامہ بن لادن کی آخری قیام گاہ تک پہنچنے کے لیے امریکی جاسوسوں اورڈاکٹر شکیل آفریدی کے درمیان ملاقاتوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

سیوو دی چلڈرن کے عہدیدار ان الزامات کی سختی سے تردید کرچکے ہیں۔

پاکستان سے تنظیم کے غیر ملکی عملے کی بے دخلی کی خبر کا انکشاف برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘نے ایک روز قبل کیا تھا۔

پاکستانی حکام نے شکیل آفریدی کو گزشتہ سال ابیٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن میں بن لادن کی ہلاکت کے بعد ان اطلاعات کے بعد گرفتار کرلیا تھا کہ القاعدہ کے مفرور رہنما تک پہنچنے کے لیے اُس نے امریکی سی آئی اے کی ایما پر ہیپاٹائٹس کی جعلی مہم چلائی تھی۔


ڈاکٹر شکیل آفریدی (فائل فوٹو)

امریکہ اس گرفتاری پر روز اول سے سراپا احتجاج ہے اور اُس کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

بظاہر ان مطالبات کی روشنی میں خلاف توقع اس سال اپریل میں قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے رہائشی ڈاکٹر آفریدی کومقامی انتظامیہ نے متنازع ایف سی آر قانون کے تحت مقدمہ چلا کر لشکر اسلام اور دیگر کالعدم تنظیمیوں کی مالی معاونت کے الزام میں اسے 33 سال قید کی سزا سنا دی۔

لیکن امریکہ پاکستان کی اس کارروائی پرتحفظات کا اظہار کرکے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم ہے کہ ڈاکٹر آفریدی نے دنیا کو انتہائی مطلوب شخص تک پہنچنے میں مدد کر کے ایک کارنامہ کیا ہے جبکہ پاکستانی حکام نے اُسے اس جرم کی پاداش میں سزا دلوائی ہے۔

تاہم پاکستانی رہنما امریکہ کے اعتراضات اور تحفظات کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ امریکی حکام کو اُن کے عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔