چینی سفیر کے بیان پر پاکستان کی حیرت: کیا اعلٰی سطح رابطوں کے باوجود بداعتمادی برقرار ہے؟

  • پاکستان نے چینی سفیر کے بیان کو حیران کن اور سفارتی روایات کے برعکس قرار دیا ہے۔
  • چینی سفیر نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چینی شہریوں پر حملوں کو ناقابلِ قبول اور سی پیک کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا۔
  • ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکام، سیکیورٹی خدشات پر چین کی تشویش نہیں سمجھ پا رہے: ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاکستان کونسل آن چائنا ڈاکٹر فضل الرحمٰن
  • پاکستان چین کی تشویش کو سمجھتا ہے لیکن بیجنگ کو بھی پاکستان کے حالات کا ادراک ہونا چاہیے: تجزیہ کار علی بیگ

اسلام آباد -- پاکستان نے چین کے سفیر کی جانب سے اپنے شہریوں کے تحفظ سے متعلق بیان کو سفارتی روایات کے برعکس اور حیران کن قرار دیا ہے۔

دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کی سارہ زمان کے سوال پر کہا کہ پاکستانی قیادت نے چین کی اعلی قیادت کو یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ ان کے شہریوں اور منصوبوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر چینی شہریوں پر حملے افسوس ناک ہیں جس پر چینی عوام اور حکومت کی تشویش سے آگاہ ہیں۔ پاکستان نے چینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات سے متعلق چینی حکام کو آگاہ رکھا ہے۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے ہی چینی سفیر جیانگ زائی ڈونگ نے کہا تھا کہ چینی شہریوں کی سیکیورٹی سی پیک کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور چھ ماہ میں چینی شہریوں پر دو مہلک حملے 'ناقابلِ قبول' ہیں۔

چینی سفیر کا یہ بیان مقامی ذرائع ابلاغ میں زیر بحث رہا اور ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان کے حکومتی حلقوں میں چینی سفیر کے بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے عوامی سطح پر تشویش کا اظہار معاملے کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اعلٰی سطحی روابط کے باوجود بداعتمادی برقرار ہے۔

'لگتا ہے چین کی برداشت ختم ہو رہی ہے'

'پاکستان کونسل آن چائنا' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکام، سیکیورٹی خدشات پر چین کی تشویش نہیں سمجھ پا رہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ چینی سفارت کار نے عوامی سطح پر اب اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے حالاں کہ یہ چینی سفارت کاری کی روایت نہیں رہی۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں پر مسلسل حملوں کی وجہ سے چین کی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چینی سفیر نے سی پیک منصوبوں کو سیکیورٹی سے مشروط تو نہیں کیا۔ لیکن یہ عندیہ ضرور دیا ہے کہ اگر حملے نہ رکے تو چینی منصوبے سست پڑ سکتے ہیں۔

'چین کو بھی پاکستان کے حالات کا ادراک ہونا چاہیے'

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد کے چین ڈیسک کے سربراہ علی بیگ کہتے ہیں کہ پاکستان چین کی تشویش کو سمجھتا ہے لیکن بیجنگ کو بھی پاکستان کے حالات کا ادراک ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے مایوسی کے اظہار سے سی پیک مخالف قوتیں فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔

علی بیگ کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زائد جانیں گنوا چکا ہے اور اس میں پاکستان کے دُشمن ممالک کی ایجنسیوں کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

علی بیگ نے کہا کہ 'ہمالیہ سے بلند' پاک چین دوستی کے نعرے اور اسٹریٹجک شراکت داری کے دعوؤں کے دوران عوامی سطح پر ایسے شکوے اچھے نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں کراچی ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملے میں دو چینی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل مارچ میں خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں چینی انجینئرز کے قافلے پر ہونے والے خودکش حملے میں پانچ چینی انجینئرز جان کی بازی ہار گئے تھے۔

'حالیہ واقعات کی تحقیقات اطمینان بخش نہیں ہیں'

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ چینی شہریوں پر ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے حملوں اور سیکیورٹی کوتاہی میں پاکستان کی جانب سے کسی ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی پاکستان اور چین کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے حالیہ واقعات کی تحقیقات زیادہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ چینی سفیر نے اپنے بیان میں صدر شی کا حوالہ اس وجہ سے دیا تاکہ واضح ہو سکے کہ یہ چینی حکومت کی مشترکہ سوچ ہے نہ کہ صرف ان کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کو بیانات سے بڑھ کر عملی اقدامات لینا ہوں گے تب ہی چینی قیادت کا اعتماد بحال ہو گا۔

علی بیگ کہتے ہیں کہ چین کے اس بیان سے اندرونی اختلافات سامنے آئیں گے اور لوگوں کو منفی گفتگو کا موقع ملے گا۔

علی بیگ نے کہا کہ الزامات اور شکوہ شکایت کرنا آسان ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ زمینی حقائق کو بھی دیکھنا چاہیے کیوں کہ ایسے وقت میں جب بھارت کشمیر میں ہونے والے واقعات کا الزام پاکستان پر نہیں لگا رہا بیجنگ کا اسلام آباد پر تحفظات کا اظہار ہمارے لیے تکلیف دہ ہے۔

علی بیگ کہتے ہیں کہ پاکستان کئی بار چین کو یہ باور کرا چکا ہے کہ چینی شہریوں پر حملوں میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ملوث ہیں۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر چینی شہریوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور یہ چین کی ذمہ داری نہیں ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت بھی پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح کر چکی ہے کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔