پاکستان نے کہا ہے کہ اسلام آباد متعلقہ فریقین کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے اور خطے کے امن کی بحالی کے لیے کام کرنے کی کسی بھی قسم کی کوشش کا خیر مقدم کرے گا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بدھ کو کیے گئے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی ہے۔
پاکستان کی دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران کہا کہ اگرچہ اسلام آباد صدر ٹرمپ کے خطاب کا جائزہ لے رہا ہے۔ تاہم پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ خطے میں امن کو موقع ملنا چاہیے اور کشیدگی میں کمی ہونی چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی قیادت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ خطے میں کشیدگی کو کم ہونا چاہیے۔ خطے کے اندر اور باہر رابطوں کی گنجائش موجود ہے اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا خطے کے ممالک اور امریکہ کا دورہ اس سلسلے کی کڑی ہو گا۔
یاد رہے کہ تین جنوری کو امریکہ کے ڈرون حملے میں ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ردِعمل میں ایران نے بدھ کو امریکہ کی دو فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
امریکہ اور ایران کی ایک دوسرے خلاف کارروائی کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایران، سعودی عرب اور امریکہ کے دورے کی ہدایت دے چکے ہیں جب کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سلسلے میں متعلقہ ملکوں کی فوجی قیات سے رابطہ کرنے کا کہا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون سے متعلق سوال پر ترجمان خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں جو سیاسی، عسکری اور اقتصادی شعبوں پر محیط ہیں۔
SEE ALSO: 'جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے'ان کے بقول، "دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان مختلف سطح پر رابطے ہوتے رہتے ہیں اور ان رابطوں کا محور تعلقات کو مضبوط کر کے باہمی مفاد کو بڑھانا ہے اور ان رابطوں کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے بجائے جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کرنے پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی وجہ سے افغان امن عمل متاثر ہونے کے خدشے پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ توقع ہے کہ افغان امن عمل میں ہونے والی پیش رفت کو مزید آگے بڑھایا جائے گا اور مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتِ حال کی وجہ سے افغان امن عمل متاثر نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی قیادت اس بات پر زور دی چکی ہے کہ خطے کی کشیدگی کی وجہ سے افغانستان میں امن عمل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
امریکہ کے صدر کی طرف سے ایران پر نئی تعزیرات عائد کرنے کے عندیے پر تبصرہ کرتے ہوئے عائشہ فاروقی نے کہا کہ پاکستان کو اس بارے میں مزید تفصیلات کا انتظار ہے اور جب صورت حال واضح ہو گی اس وقت اپنا مؤقف سامنے لایا جائے گا۔
SEE ALSO: 'پاکستان کسی علاقائی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا'امریکی کی طرف سے پاکستان کی فوجی افسروں کے لیے تربیت و تعلیم کے پروگرام کو بحال کرنے کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کا یہ فیصلہ درست سمت کی طرف کیے گئے اقدامات میں سے ایک اور اہم قدم ہے۔
اُن کے بقول، " امریکہ کا فوجی تربیتی پروگرام کی بحالی کا فیصلہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان فروغ پاتے باہمی تعلقات کا مظہر ہے۔"
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ باہمی اعتماد و احترام کے تحت وسیع البنیاد اور پائیدار تعلقات کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسے میں دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی فوج کے افسران کے لیے امریکہ کے فوجی تربیتی اداروں میں تربیت پروگرام کو بحال کرنے کے اقدام کی توثیق کی تھی جسے 2018 میں معطل کیا گیا تھا۔
'پاکستان صرف امن کا ساتھ دے گا'
دریں اثنا پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خظاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کرانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
پاکستان کے وزیر اعطم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے درمیان دوستی کرانے کی بھر پور کوشش کرے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے۔
اگرچہ سعودی عرب اور ایران براہ راست حالیہ کشیدگی میں شامل نہیں۔ تاہم خطے میں ایک عرصے سے جاری کشیدگی کی وجہ سے ریاض اور تہران کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جنگ جیتنے والے ممالک بی درحقیقت ہار جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ تو جنگ کرے گا اور نہ کسی جنگ میں شامل ہو گا۔
وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے علاقائی جنگوں میں شریک ہو کر ماضی میں بھاری قیمت چکائی ہے۔ انہوں نے کہا وہ صدر ٹرمپ سے بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر کرانا چاہتے ہیں۔
'غیر ملکی سفیروں کا دورہ محض دکھاوا'
بھارت حکومت کی جانب سے امریکی سمیت مختلف ممالک کے سفیروں کو جموں و کشمیر کا دورہ کرانے پر بھی پاکستان نے ردعمل دیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اُمید کرتا ہے کہ بھارت اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، اسلامی تعاون تنظیم، بھارتی سیاست دانوں اور انسانی حقوق تنظیموں کے نمائندوں کو بھی جموں و کشمیر کا دورہ کرائے گا۔
عائشہ فاروقی نے کہا کہ پاکستان یہ بھی اُمید کرتا ہے کہ یہ دورہ کسی بھی قسم کی پابندیوں کے بغیر ہو گا۔ اور وفود کو حریت رہنماؤں اور کشمیری عوام سے براہ راست ملاقات کر کے صورتِ حال کا جائزہ لینے کا موقع ملے گا۔
پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ پانچ اگست کے بعد حراست میں لیے گئے حریت رہنماؤں کو بھی فوری رہا کیا جائے۔