امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور پیپلز پارٹی کی مرکزی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال میں پاکستان کو امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہونا البتہ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے خلاف حملے میں پہل کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ خطے میں تناؤ کی صورت حال میں پاکستان کو امریکہ اور ایران کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر فریقین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مائیک پومپیو کی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون کال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ کے پاکستان کے آرمی چیف کو فون سے ادراک کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا اس صورت حال میں اہم کردار ہے۔
شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ پاکستان اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے مسلم ممالک سے بات کرے اور اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کی کانفرنس بلوائے۔
یاد رہے کہ تین جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے قریب امریکہ نے ایک فضائی حملے میں ایران کے اعلیٰ فوجی افسر جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا تھا۔ جس کے بعد پاکستان نے خطے میں کسی تنازع کا حصہ نہ بننے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں جاری بحران میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔
اس حوالے سے سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا پارلیمان میں دیا گیا پالیسی بیان حوصلہ افزا نہیں تھا جب کہ خطے میں کشیدگی پر ایوان میں دیا گیا یہ بیان صحافیوں کی دی جانے والی بریفنگ سے زیادہ نہیں تھا۔
شاہ محمود قریشی کے پارلیمان میں بیان پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی ایرانی اور سعودی ہم منصب سے کیا بات ہوئی جب کہ امریکی سیکریٹری خارجہ کی آرمی چیف سے ہونے والی بات چیت میں کیا طے پایا ہے۔
پیپلز پارٹی کی مرکزی نائب صدر کا کہنا تھا کہ خطے کا امن خطرے میں ہے جب کہ حکومت نے نہ تو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا نہ ہی خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی میں موجودہ صورت حال زیر بحث آئی۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے عوام کے منتخب ایوان کی جانب سے نہیں ہو رہے نہ ہی حکومت کی جانب سے پارلیمان کی شراکت داری کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شیری رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ اب بتایا جا رہا ہے کہ اپنی سر زمین استعمال کرنے نہیں دیں گے۔ سر زمین تو ویسے بھی استعمال نہیں ہو رہی۔ آپ کا حکومتی کردار کیا ہے۔ کس طرح اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ ہماری فوجیں کہاں کہاں ہیں یہ سب باتیں ہونی چاہئیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ حالات کا جبر ہے یا حکومت کی نا اہلی کہ پاکستان سفارتی سطح پر متحرک دیکھائی نہیں دے رہا کہ خطے کے کشیدہ صورت حال میں بہتری کے لیے کردار ادا کر سکے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کی بڑی عسکری قوت اور ایٹمی طاقت ہے ہمیں خطے میں تناؤ میں کمی کے لیے بیک ڈور سفارت کاری سے کام لینا چاہیے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ افسوس ہو رہا ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کا نمایاں کردار ہو سکتا تھا لیکن حکومت ملک کے اندرونی معاملات میں کوئی کردار نہیں ادا کر پا رہی تو خطے کے مسائل میں کیا کرے گی؟
امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟
سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ امریکی سیکریٹری خارجہ کی آرمی چیف کے ساتھ بات چیت کا مقصد یقیناََ یہ ہو گا کہ پاکستان ان کے ساتھ فریق بنے ۔
ان کے بقول پاکستان کو غیر عسکری حل نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے بصورت دیگر اس کے دنیا پر سنگین اثرات ہو سکتے ہیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ کی پاکستان کے وزیر خارجہ کی بجائے آرمی چیف سے رابطے پر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی حکومت کی کوتاہی ہے کہ اس نے فیصلہ سازی کے حوالے سے خلا چھوڑا ہے اور یہ قدرتی عمل ہے کہ اس خلا کو کسی نہ کسی نے پر کرنا ہوتا ہے۔
سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ خطے میں تناؤ کی اس صورت حال میں سعودی عرب اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے پیغام دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں بڑھاوا نہیں چاہتا اور ان کی نظر میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا کہ ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد نے درست کہا ہے کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم لوگ اپنے اپنے ملک سے آگے دیکھیں کیوں کہ اس نئی صورت حال میں کوئی کسی پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔
ان کے مطابق اسرائیل بھی حالیہ کشیدہ صورت حال میں محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے جو عموما جارحانہ ہوتا ہے۔
'امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منٹوں میں فیصلہ کرتے ہیں'
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منٹوں میں فیصلہ کرکے سوشل میڈیا پر براہ راست اعلان کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ خارجہ امور و سفارت کاری کے روایتی طریقہ کار اور رسم و روایات کا مذاق اڑاتے ہیں اسی وجہ سے ان کا غیر متوقع پن مشہور ہے اور تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
شیری رحمن کہتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے اور یہ خطہ اس وقت جنگ کے دہانے پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی داخلی سیاسی صورت حال خاصی کشیدہ ہے جہاں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی چل رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما نے بتایا کہ رواں سال امریکی صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس کی ابتدا فروری کے آغاز میں پارٹیوں کے پرائمری انتخابات سے ہو جائے گی۔
شیری رحمٰن کے مطابق ماضی میں ایسا متعدد بار یہ ہو چکا ہے کہ کسی ملک کے سربراہ نے خود کو داخلی سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے خارجہ محاذ کھول لیا اور قومی سلامتی کے نام پر فیصلہ سازی کے تمام اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا اثر امریکہ کے صدارتی انتخابات پر پڑے گا۔
ان کے بقول مشرق وسطی کی ڈرامائی صورت حال سے شاید صدر ٹرمپ کو اپنے مواخذے اور سینیٹ میں مقدمے سے قوم کی توجہ ہٹانے میں مدد ملے۔