سپریم کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹین ریٹائرڈ محمد صفدر کو دی گئی سزا معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو کی اپیل خارج کر دی ہے۔
پیر کو چيف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نیب کی اپیل کی سماعت کی تو نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے دلائل دیے۔
جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ ضمانت دینے اور منسوخ کرنے کے معیار اور اصول مختلف ہیں۔
انھوں نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ملزمان کو ضمانت دے چکی اب کس بنیاد پر منسوخ کریں۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ 17 قانونی نکات ہیں، جن پر عدالت نے بحث کا کہا تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نیب کا موقف سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ضمانت تو اب ہوگئی ہے، بے شک غلط اصولوں پر ہوئی ہو، آپ ہمیں مطمئن کریں کہ ہم کیوں سزا معطلی کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں عدالت عظمیٰ کے مقدمات کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں، صرف ہارڈشپ کے اصولوں پر ضمانت ہوسکتی ہے جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت ہارڈشپ کے اصولوں پر نہیں ہوئی۔ نیب کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سزا معطلی یا ضمانت کی درخواست میں کیس کے میرٹ پر نہیں جایا جاتا، ہائی کورٹ نے نامساعد حالات کے بغیر ضمانت دے دی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ نواز شریف پر ضمانت کے غلط استعمال کا بھی الزام نہیں ہے اور ہائیکورٹ کا معطلی کا فیصلہ طویل ہے مختصر بھی لکھا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا نواز شریف اس وقت آزاد شخص نہیں پھر نیب کیوں ضمانت منسوخ کرانا چاہتی ہے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے نوازشریف، مریم نوازاور ان کے داماد محمد صفدر کی سزا معطلی اور ضمانت کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔
سماعت کے بعد نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے مییڈ یا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ نیب نے جو بھی کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہے، نیب کے قانون میں کوئی سقم نہی، ہماری اپیل کمزور نہیں تھی۔
مسلم لیگ نواز کا ردعمل
عدالتی فیصلے پر مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اونگزیب نے کہا کہ مفروضوں پر مبنی کیس قانون کے کٹہرے میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف آج تک ایک روپے کی کرپشن اور اختیارات کا غلط استعمال ثابت نہیں ہوا ہے۔ نیب انکے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں کر سکی۔
ادھر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔
ایوان فیلڈ ریفرنس کیا ہے؟
2016 میں پاناما لیکس کے انکشافات میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کی آف شور کمپنیاں سامنے آئی تھیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس نوازشریف کے لندن میں موجود فلیٹس سے متعلق ہے جس کے مطابق لندن کے پوش علاقے’مے فیئر‘ میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس نواز شریف کے بچوں کے نام ہیں۔
28 جولائی 2017 میں سپریم کورٹ نے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو اُن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
8 ستمبر2017 کو نیب نے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، ان کے تینوں بچوں اور داماد کے خلاف عبوری ریفرنس دائر کیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 9 ماہ 20 دن تک ریفرنس کی سماعت کی۔ 3 جولائی 2018 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 6 جولائی کو سنایا گیا جس میں نواز شریف کو مجموعی طور پر گیارہ سال، مریم نواز کو آٹھ سال قید اور جرمانے کے ساتھ ساتھ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جس کے خلاف انھوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی۔
19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کے خلاف سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کیا تھا۔ نیب نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کیں تھیں جنھیں آج سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔