عدالتِ عظمیٰ نے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت بدھ تک ملتوی کر دی ہے۔
منگل کو دوسرے روز سماعت کا آغاز ہوا تو وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل بینچ کے سامنے پیش کرنا شروع کیے۔
ایک روز قبل ہونے والی سماعت میں درخواست گزاروں عمران خان اور جماعت اسلامی کے وکلا جب کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بذات خود دلائل مکمل کیے تھے۔
تحریک انصاف کے وکیل وزیراعظم کو عدالت میں بلانے کی استدعا کر چکے ہیں جب کہ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے نواز شریف پر دروغ گوئی کے الزام پر اپنے دلائل دیے۔
شریف خاندان اور وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اپنے اعتراضات عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے تھے اور وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے ان ہی اعتراضات پر اپنے دلائل دیے۔
ان کا استدلال تھا کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کی طرف سے وضع کیے گئے 13 سوالوں کی بجائے 15 سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کے لیے کام کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا۔
مزید برآں جے آئی ٹی نے ان پرانے مقدمات کی بھی چھان بین کی جن پر عدالتوں کی طرف سے فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔
اس پر بینچ کے ریمارکس تھے کہ جے آئی ٹی کو تحقیقات اس لیے سونپی گئی تھیں کیونکہ شریف خاندان کی طرف سے اطمینان بخش ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔
بینچ نے کہا کہ عدالت نے (جے آئی ٹی کی) رپورٹ کی سفارشات پر نہیں بلکہ دستاویزات کو دیکھتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔
بینچ کا کہنا تھا کہ لندن میں شریف خاندان کے فلیٹس کی ملکیت کے لیے رقوم کے ذرائع شریف خاندان نے ہی ثابت کرنے ہیں اور عدالت شواہد دیکھ کر ہی وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔
تین رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شریف خاندان نے یہ سوچ رکھا تھا کہ انھوں نے جے آئی ٹی کو کچھ نہیں بتانا کیونکہ ٹیم کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں پر کوئی بھی اطمینان بخش جواب نہیں دیا گیا۔
عدالت نے سماعت بدھ تک ملتوی کردی ہے۔
منگل کو بھی سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ کے باہر فریقین نے میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے پر الزامات اور اپنے موقف کے حق میں دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔
حزب مخالف کا استدلال ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف مالی بے ضابطگیاں ثابت ہوتی ہیں لہذا نوازشریف وزارتِ عظمیٰ پر براجمان رہنے کا اخلاقی اور قانونی جواز کھو چکے ہیں۔
لیکن وزیراعظم اور ان کی جماعت کے راہنما اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ کے نتائج کو رد کر چکے ہیں۔