پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے عارضہ قلب کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے اسٹنٹ کی مقامی سطح پر تیاری سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کی نجی اسپتالوں پر بھی نظر ہے اور انھیں "مریضوں کو ذبح" نہیں کرنے دیا جائے گا۔
غیر معیاری اسٹنٹس سے متعلق از خود نوٹس کی ہفتہ کو اسلام آباد میں ہونے والی سماعت میں معروف جوہری سائنسدان ثمر مبارک مند بھی پیش ہوئے جن سے عدالت نے مقامی سطح پر اسٹنٹس کی تیاری کے بارے میں استفسار کر رکھا تھا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر ثمر مبارک سے پوچھا کہ آپ نے اسٹنٹ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی، جو اسٹنٹ آپ نے بنایا وہ کہاں ہے؟، اپنی کارکردگی سے تحریری طور پر آگاہ کریں اور تمام اخراجات کی تفصیل فراہم کریں، کیا 37 ملین (تین کروڑ 70 لاکھ روپے) سے بھی اسٹنٹ نہیں بنا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک نے جواب دیا کہ 37 ملین روپے کی لاگت سے منصوبہ شروع ہوا تھا اور سالانہ دس ہزار اسٹنٹس تیار کیے جانے تھے۔ "بطور چیئرمین نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (نیسکام) میں نے 2004ء میں جرمنی سے مشین امپورٹ کی، میں نے تمام ٹیکنالوجی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) کو منتقل کر دی۔" نسٹ حکام نے جواب دیا کہ تین کروڑ کی تو صرف مشین ملی تھی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایا کہ ڈاکٹر مند کو دیے گئے 37 ملین روپے کا آڈٹ بھی نہیں ہوا۔ عدالت نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو دیے گئے 37 ملین کے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے ڈاکٹر ثمر سے ایک ہفتے میں تحریری جواب طلب کر لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مئی تک ہر صورت میں پاکستانی اسٹنٹ تیار ہوجانے چاہئیں اور عدالت خود اپنے طور پر ان اسٹنٹ کو چیک کروا کر ان کی قیمتیں مقرر کرے گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو آڈٹ رپورٹ پیش کرنے کےلیے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ جس نے کام نہیں کرنا وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے۔
عدالت میں سماعت کے دوران مختلف اسپتالوں کے شعبہ امراض قلب کے سربراہان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ ایمرجنسی مریضوں کو تمام سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ پنجاب میں موجود امراض قلب کے پانچ اسپتالوں میں اسٹںنٹ 15 ہزار میں ملتا ہے جبکہ ڈرگ ایلویٹنگ سٹنٹ 34 ہزار میں ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ مریض کو ڈالے گئے اسٹنٹس کی تمام تفصیلات فراہم کی جائیں اور اینجیو پلاسٹی کے تمام عمل کی پریزنٹیشن دی جائے۔ پی آئی سی کے سربراہ نے بتایا کہ پرائیویٹ مریضوں سے 76 ہزار سے 90 ہزارفی اسٹنٹ تک وصول کیے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ اسپتال نے ایک جج کی بیٹی کی اینجیو پلاسٹی 64 لاکھ روپے میں کی، "پرائیویٹ اسپتالوں کو مریض ذبح کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہسپتال مالکان کو بتا دیں وہ ہماری نظر میں ہیں۔"