پاکستان کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی توہین مذہب کے جرم میں سزا یافتہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت شروع کریں گے۔
51 سالہ آسیہ بی بی کو 2010ء میں ایک ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جسے 2014ء میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا جس کے بعد اس سزا کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔
ہفتہ کو سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں انسانی حقوق سے متعلق ایک معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کمرہ عدالت میں موجود آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی اپیل کی جلد سماعت کریں گے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سیف الملوک نے بتایا کہ "انھوں (چیف جسٹس) نے کہا کہ میں یہ کیس بھی لگا رہا ہوں اور بینچ کی سربراہی میں خود کروں گا، آپ تیاری کرو۔"
وکیل دفاع کے مطابق توقع ہے کہ ایک مہینے سے بھی کم وقت میں اس اپیل کی شنوائی شروع ہو جائے گی۔
2016ء میں اس اپیل پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں بینچ تشکیل دیا گیا تھا لیکن اس میں شامل ایک جج جسٹس اقبال حمید الرحمٰن نے یہ کہہ کر خود کو سماعت سے علیحدہ کر لیا تھا کہ وہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے مقدمہ قتل کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت سے بھی وابستہ رہے ہیں اور دونوں مقدمات کا آپس میں تعلق ہونے کی وجہ سے وہ اس کی شنوائی میں شامل نہیں ہوں گے۔
اس کے بعد اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی۔
آسیہ بی بی پر الزام ہے کہ انھوں نے 2009ء میں پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں مسلمان خواتین کے ساتھ بحث و تکرار کے دوران اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ آسیہ اس الزام کو مسترد کرتی آئی ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا جب اُس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثر نے جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات کی اور بعد ازاں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس پر نظر ثانی کیے جانے کے بارے میں بیان بھی دیا۔
ان کے اس بیان پر مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید دیکھنے میں آئی اور جنوری 2011ء میں سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ممتاز قادری نے انھیں فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔
ممتاز قادری کو عدالت کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی جس پر فروری 2016ء میں عملدرآمد ہوا۔
مذہبی حلقے خصوصاً ممتاز قادری کے حامیوں کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ آسیہ بی بی کی سزا موت پر جلد عملدرآمد کیا جائے۔