یونیسکو کے اس منصوبے کے تحت اسکولوں کی عمارتوں کو قدرتی آفات اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔
اسلام آباد —
خیبر پختون خواہ میں حالیہ چند برسوں کے دوران خاص طور پر دہشت گردانہ کارروائیوں اور سیلاب کے باعث سینکڑوں تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا جس نے صوبے کے لاکھوں طلبا و طالبات کی تعلیمی سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔
اس صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ایک خصوصی منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت اسکولوں کی عمارتوں کو قدرتی آفات اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔
عالمی تنظیم کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت ’یونیسکو‘ کی زیر نگرانی اس مہم میں اساتذہ اور طلبا کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔
یونیسکو کے پروگرام افسر ارسلان زیدی کہتے ہیں کہ اسکولوں کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر جگہ کے انتخابات کی اہمیت کو پیش نظر رکھا جاتا تو ممکن ہے 2005 ء کے زلزلے اور حالیہ بد ترین سیلابوں میں ہلاک ہونے والے17 ہزار سے زائد طلبا میں سے بہت سوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
’’بد قسمتی سے اسکولوں کے لیے جو جگہیں فراہم کی جاتی ہیں وہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ کئی مقامات پر وہ دریا کے کنارے پر ہیں تو کہیں وہاں جہاں لینڈ سلائیڈنگ ہو سکتی ہے جبکہ کئی خستہ حالت اسکول کی عمارتوں میں اب بھی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔‘‘
ارسلان زیدی نے کہا کہ یونیسکو کی حکمت عملی پر عملدرآمد کرنے سے قدرتی آفات کے بعد تعلیمی اداروں کی تعمیر نو پر اخراجات بھی نسبتاً کم اُٹھیں گے۔
’’اگر اسکول کو محفوظ نہیں بنایا جاتا ہے تو عمارت اور بچوں کی جانیں دونوں ضائع ہوں گی جو ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ اس وقت (تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانے پر) خرچ کرنا ان اخراجات سے 20 گنا کم ہو گا جو کہ تعمیر نو پر کیے جائیں گے۔‘‘
ارسلان زیدی کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ صوبوں کو تعلیم کا بجٹ بڑھانے پر راغب کرنے کے لیے بھی کوششیں کر رہا ہے۔
صوبائی وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خواہ میں صرف دہشت گردی سے متاثرہ اسکولوں کی تعداد تقریباً 800 ہے جن میں 180 مکمل طور پر تباہ ہوئے۔
مالاکنڈ ڈویژن اس اعتبار سے سب سے متاثرہ علاقہ رہا جہاں شدت پسندوں نے 650 تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا۔
تاہم حکام کے بقول ان تعلیمی اداروں کی تعمیر نو جاری ہے اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد بحال ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ایک خصوصی منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت اسکولوں کی عمارتوں کو قدرتی آفات اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔
عالمی تنظیم کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت ’یونیسکو‘ کی زیر نگرانی اس مہم میں اساتذہ اور طلبا کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔
یونیسکو کے پروگرام افسر ارسلان زیدی کہتے ہیں کہ اسکولوں کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر جگہ کے انتخابات کی اہمیت کو پیش نظر رکھا جاتا تو ممکن ہے 2005 ء کے زلزلے اور حالیہ بد ترین سیلابوں میں ہلاک ہونے والے17 ہزار سے زائد طلبا میں سے بہت سوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
’’بد قسمتی سے اسکولوں کے لیے جو جگہیں فراہم کی جاتی ہیں وہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ کئی مقامات پر وہ دریا کے کنارے پر ہیں تو کہیں وہاں جہاں لینڈ سلائیڈنگ ہو سکتی ہے جبکہ کئی خستہ حالت اسکول کی عمارتوں میں اب بھی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔‘‘
ارسلان زیدی نے کہا کہ یونیسکو کی حکمت عملی پر عملدرآمد کرنے سے قدرتی آفات کے بعد تعلیمی اداروں کی تعمیر نو پر اخراجات بھی نسبتاً کم اُٹھیں گے۔
’’اگر اسکول کو محفوظ نہیں بنایا جاتا ہے تو عمارت اور بچوں کی جانیں دونوں ضائع ہوں گی جو ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ اس وقت (تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانے پر) خرچ کرنا ان اخراجات سے 20 گنا کم ہو گا جو کہ تعمیر نو پر کیے جائیں گے۔‘‘
ارسلان زیدی کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ صوبوں کو تعلیم کا بجٹ بڑھانے پر راغب کرنے کے لیے بھی کوششیں کر رہا ہے۔
صوبائی وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خواہ میں صرف دہشت گردی سے متاثرہ اسکولوں کی تعداد تقریباً 800 ہے جن میں 180 مکمل طور پر تباہ ہوئے۔
مالاکنڈ ڈویژن اس اعتبار سے سب سے متاثرہ علاقہ رہا جہاں شدت پسندوں نے 650 تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا۔
تاہم حکام کے بقول ان تعلیمی اداروں کی تعمیر نو جاری ہے اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد بحال ہو چکے ہیں۔