پاکستان کے وزیر داخلہ نے بتایا کہ ملک کے اکثر حصوں میں ہفتہ اور اتوار کو بھی موبائل فون سروس معطل رہے گی جب کہ بعض علاقوں میں وائرلیس فون کی سروس بھی بند کر دی جائے گی۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ممکنہ دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر جزوی طور پر موبائل فون سروس معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ تجارتی مرکز کراچی اور کوئٹہ میں دوپہر ایک بجے سے رات 12 بجے تک موبائل فون سروس بند رہے گی۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ ملک بھر میں نافذ کیے گئے ان غیر معمولی حفاظتی اقدامات کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد اور عاشورہ کے جلوسوں پر دہشت گرد حملوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے اکثر حصوں میں ہفتہ اور اتوار کو موبائل فون سروس معطل رہے گی۔ بعض علاقوں میں وائرلیس فون کی سروس بھی بند کر دی جائے گی۔
مزید برآں وزیر داخلہ نے بتایا کہ امام بارگاہوں کے آس پاس موٹر سائیکل کی سواری اور اُن کی پارکنگ پر بھی پابندی لگانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ رحمٰن ملک نے کہا کہ ان اقدامات کی وجہ سے عام شہریوں کو درپیش مشکلات سے حکومت بخوبی آگاہ ہے مگر لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیےیہ انتظامات ناگزیر ہیں۔
’’صوبوں کی طرف سے ملنے والی درخواستوں کی بنیاد پر یہ موبائل سروس بند کی گئی۔ ایک تو یہ کہ 468 بم دھماکے موٹر سائیکل کے ہوئے اور 90 فیصد سے زائد بم دھماکے موبائل فون کی سم کے ذریعے کیے گئے جو ریکارڈ ہمارے پاس ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ 15 دنوں میں جتنے بھی دھماکے ہوئے وہ بھی موٹرسائیکل میں نصب بم کے تھے اور دیسی ساختہ بم دھماکوں کی جو تحقیقات ہوئیں اس میں بھی موبائل فون استعمال ہوا۔‘‘
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔
’’کراچی میں تمام کوڑے دانوں کو ہٹانے کا حکم دے دیا گیا ہے، سونگھنے والے کتوں کی مدد سے جلوس کے راستوں پر تلاشی میں مدد لی جا رہی ہے۔۔۔ جلوس کے راستوں پر جیمر لگائے جا رہے ہیں تاکہ اگر کوئی موبائل فون کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بم دھماکے کی کوشش کرنا چاہے تو اسے بھی ناکام بنایا جاسکے۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ بعض حساس علاقوں خاص طور پر شمال مغربی اضلاع میں سول انتظامیہ اور پولیس کی مدد کے لیے فوجی دستوں کوتعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جبکہ کراچی میں کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوج طلب کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔
پاکستان میں مذہبی رہنماؤں نے بھی تمام فرقوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔ ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مذہبی انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کے لیے تمام مسالک اور مکاتب فکر کے علما پر زور دیا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ امن و سلامتی کے پیغامات دیں۔
’’لوگوں کو اس طرف متوجہ کریں کہ انسانی جان کی حرمت و تقدس کی ضمانت اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے تو اس کو پامال کرنے والے مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں۔ اس بارے میں دو ٹوک بات اگر ہر منبر و محراب سے ہو تو کم از کم ایک مثبت پیغام ضرور جائے گا۔‘‘
حالیہ برسوں میں عاشورہ کے موقع پر پہلی مرتبہ پاکستان میں اس قدر غیر معمولی حفاظتی انتظامات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ کراچی میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ اور رواں ہفتے محرم الحرام کے ماتمی جلسوں پر حملے ہیں جن میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دریں اثناء ملک بھر میں شیعہ برادری کی طرف سے آٹھویں محرم کے ماتمی جلوس اور مجالس کا سلسلہ جاری ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ تجارتی مرکز کراچی اور کوئٹہ میں دوپہر ایک بجے سے رات 12 بجے تک موبائل فون سروس بند رہے گی۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ ملک بھر میں نافذ کیے گئے ان غیر معمولی حفاظتی اقدامات کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد اور عاشورہ کے جلوسوں پر دہشت گرد حملوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے اکثر حصوں میں ہفتہ اور اتوار کو موبائل فون سروس معطل رہے گی۔ بعض علاقوں میں وائرلیس فون کی سروس بھی بند کر دی جائے گی۔
مزید برآں وزیر داخلہ نے بتایا کہ امام بارگاہوں کے آس پاس موٹر سائیکل کی سواری اور اُن کی پارکنگ پر بھی پابندی لگانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ رحمٰن ملک نے کہا کہ ان اقدامات کی وجہ سے عام شہریوں کو درپیش مشکلات سے حکومت بخوبی آگاہ ہے مگر لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیےیہ انتظامات ناگزیر ہیں۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔
’’کراچی میں تمام کوڑے دانوں کو ہٹانے کا حکم دے دیا گیا ہے، سونگھنے والے کتوں کی مدد سے جلوس کے راستوں پر تلاشی میں مدد لی جا رہی ہے۔۔۔ جلوس کے راستوں پر جیمر لگائے جا رہے ہیں تاکہ اگر کوئی موبائل فون کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بم دھماکے کی کوشش کرنا چاہے تو اسے بھی ناکام بنایا جاسکے۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ بعض حساس علاقوں خاص طور پر شمال مغربی اضلاع میں سول انتظامیہ اور پولیس کی مدد کے لیے فوجی دستوں کوتعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جبکہ کراچی میں کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوج طلب کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔
’’لوگوں کو اس طرف متوجہ کریں کہ انسانی جان کی حرمت و تقدس کی ضمانت اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے تو اس کو پامال کرنے والے مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں۔ اس بارے میں دو ٹوک بات اگر ہر منبر و محراب سے ہو تو کم از کم ایک مثبت پیغام ضرور جائے گا۔‘‘
حالیہ برسوں میں عاشورہ کے موقع پر پہلی مرتبہ پاکستان میں اس قدر غیر معمولی حفاظتی انتظامات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ کراچی میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ اور رواں ہفتے محرم الحرام کے ماتمی جلسوں پر حملے ہیں جن میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دریں اثناء ملک بھر میں شیعہ برادری کی طرف سے آٹھویں محرم کے ماتمی جلوس اور مجالس کا سلسلہ جاری ہے۔