ایوان بالا "سینیٹ'' کی کمیٹی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو جلد قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچانے پر زور دیتے ہوئے حکام کی طرف سے زیر حراست شدت پسند کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ خصوصی سلوک پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے اجلاس میں قانون سازوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ جن جرائم کا اعتراف احسان اللہ احسان نے کیا ہے اس پر ملکی قانون کے مطابق اسے سزائے موت دی جانی چاہیئے اور بغیر کسی تاخیر کے اس کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کی جائے۔
کمیٹی کے رکن سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس شدت پسند کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک روا رکھنے کی بجائے حکام ٹی وی پر اس کا انٹرویو کروا رہے ہیں اور اسے ان کے بقول مہمان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینیٹر مشہدی کا کہنا تھا کہ اس سے حکومت کے کمزور فہم کی عکاسی ہوتی ہے۔
"انصاف ہے، اسلام ہے، قانون ہے ہمارا آئین ہے کہ مجرم کو مجرم سمجھا جائے دہشت گرد کو دہشت گرد سمجھا جائے کوئی اچھا دہشت گرد نہیں ہو سکتا کوئی اچھا مجرم نہیں ہوسکتا۔ یہ غیر انسانی لوگ ہیں درندے ہیں ان کو آپ ٹی وی پر لا کر (بیٹھاتے ہیں) ان کے اندر کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا اور جیسے یہ شیخی مارتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا ہم نے چھوٹے بچوں کے گلے کاٹے۔۔۔اور قوم کو آپ یہ دکھا رہے ہیں۔"
پاکستانی فوج نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو حکام کے حوالے کیا ہے جس کے بعد اس کا ایک وڈیو بھی تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر نشر ہوا جس میں وہ شدت پسندوں کی سرگرمیوں اور اپنے کردار کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ اس کے بقول اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر شدت پسندوں کا ساتھ چھوڑ کر خود کو حکام کے حوالے کیا۔
بعد ازاں ایک نجی ٹی وی چینل "جیو نیوز" پر احسان اللہ احسان کا خصوصی انٹرویو بھی نشر کیا گیا تھا۔
سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ جن جرائم کا اعتراف احسان اللہ احسان نے کیا اس کی سزا قانون کے مطابق موت ہے جو مروجہ قانون کے تحت کارروائی کر کے اسے دی جانی چاہیے۔
وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکرٹری فیصل لودھی نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ احسان اللہ احسان کے ساتھ کسی بھی طرح کا خصوصی سلوک روا نہیں رکھا جا رہا اور نہ ہی ایسا کیا جائے گا اور ان کے بقول اس نے جن جرائم کا اعتراف کیا حکام اس کی تفتیش کر رہے ہیں۔
احسان اللہ احسان کے ٹی وی انٹرویو پر اٹھائے گئے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزارت دفاع کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس سے انٹیلی جنس ایجنسیاں جو مقصد حاصل کرنا چاہتی تھیں وہ حاصل ہو گیا ہے اور اس کے خلاف قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جائے گی۔