صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان میں سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رائے مانگ لی ہے۔
صدرِ پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت وزیرِ اعظم پاکستان کی تجویز منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس بھیج دیا ہے۔
ریفرنس میں حکومت نے موٌقف اختیار کیا ہے کہ قانونی طور پر الیکشن شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے اور اس کا مقصد سینیٹ الیکشن میں شفافیت لانا ہے۔
صدرِ پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ بھجوائے گئے ریفرنس میں رائے طلب کی گئی ہے کہ کیا آئین میں ترمیم کیے بغیر الیکشن ایکٹ 2017 کی بعض شقوں میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں یا نہیں؟
اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارلیمان کے ایوان بالا کی آئندہ سال مارچ میں خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے 10 فروری 2021 سے قبل الیکشن کے انعقاد کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے دیا تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے سینیٹ کے شو آف ہینڈ انتخابات کی اجازت دے دی تو یہ بہت بڑا انقلاب ہو گا جب کہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ استعفوں کی صورت میں سینیٹ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔
ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی کشمکش جاری ہے اور دوسری جانب ایسی صورت حال میں پاکستان کے نئے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت کئی سیاست دانوں کی جان کو خطرہ ہے۔
الیکشن کرانا الیکشن کمشن آف پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے
ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ کے نصف ارکان 11 مارچ کو ریٹائر ہو جائیں گے اور آئین کے مطابق جو نشستیں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد خالی ہوں ان پر الیکشن کا انعقاد 30 دن سے قبل نہیں ہو سکتا۔
اس طرح سینیٹ کی خالی ہونے والی ان نشستوں پر انتخابات کا انعقاد 10 فروری 2021 سے قبل نہیں کرایا جا سکتا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر سینیٹ کے گزشتہ 4 سے 5 انتخابات مارچ کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوتے رہے ہیں اس بار بھی الیکشن کمیشن آئین اور قانون کے مطابق مناسب وقت پر ان انتخابات کی تاریخ کا اعلان ایک انتخابی پروگرام کی صورت میں جاری کرے گا۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہےکہ سینیٹ الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے اور الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے، کمیشن آئین اور قانون کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے پرعزم ہے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے سینیٹ کے انتخابات فروری کے آخر میں بھی ہو سکتے ہیں اور اس کا فیصلہ حکومت نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔
کنور دلشاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ انتخابات پہلے کروائیں گے یا تیس دن سے قبل کروائیں گے۔ حکومت کا کام الیکشن کروانا نہیں ہے، یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق شو آف ہینڈ کے ذریعے الیکشن نہیں ہو سکتا اور 10 فروری کے بعد 11 مارچ تک کسی بھی وقت الیکشن کروائے جا سکتے ہیں۔ اس میں آئین بہت واضح ہے اور کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے یا پھر سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے، اس بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ کرے گی۔ تاہم ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں اور مجھے لگ رہا ہے کہ اپوزیشن بھی اس انتخاب میں حصہ لے گی۔ اگر انہوں نے استعفے دیے تو ہم ان کی جگہ پر ضمنی انتخاب کروا دیں گے۔
اس بارے میں ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور اگر اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفی دے دیا تو یہ انتخابات ملتوی بھی ہو سکتے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ جو اپوزیشن کے بغیر انتخاب کرانے کا کہہ رہے ہیں، ان کے بارے میں مجھے حیرانگی ہے کیونکہ الیکٹورل کالج مکمل نہ ہو تو انتخاب کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر اپوزیشن نے استعفیٰ دے دیا تو یہ انتخاب ملتوی بھی ہو سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کو خطرہ ہے، شیخ رشید
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ملک کے بعض سیاست دانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ان پر دہشت گرد حملے کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہیں ۔
اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز پر حملے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بعض عناصر ملک میں بدامنی پھیلانے کے لیے ایسے حملے کر سکتے ہیں۔
نیکٹا نے اس حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیے جو پی ڈی ایم کے جلسوں سے قبل بھی جاری کیے جا چکے ہیں تاہم اپوزیشن ان تھریٹ الرٹس کو اپوزیشن کی تحریک روکنے کا ذریعہ قرار دیتی ہے۔