سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک کے چاروں صوبوں سے حراستی مراکز کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ یہ حراستی مراکز پاک فوج کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔
کمیٹی چئیرمین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
سینیٹ کی قائمه کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیرصدارت اسلام آباد میں ہوا جس میں صوبوں کی جانب سے حراستی مراکز کی تفصیلات پر بات ہوئی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ صرف خیبر پختونخواہ نے یہ فہرست فراہم کی ہے اور کمیٹی کے ارکان نے خیبرپختونخوا کے حراستی مراکز کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ کمیٹی حراستی مراکز کا دورہ کرے گی اور وہاں قیدیوں سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ انہیں کن حالات میں رکھا گیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ملک میں لاپتا افراد کا معاملہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کمیٹی کو بریفنگ دے چکے ہیں۔ اس موقع پر یہ بھی انكشاف ہوا کہ جسٹس کمال منصور اور جسٹس نور محمد کی لاپتا افراد سے متعلق رپورٹس کا ریکارڈ وزارت داخلہ کے پاس موجود نہیں۔ یہ وہی رپورٹس ہیں جن پر جسٹس جاوید اقبال نے قائمه کمیٹی کو اپنی بریفنگ کے دوران جائزہ لینے کی تجویز دی تھی۔ کمیٹی روم میں وجود وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیشن سے رپورٹس مانگی ہیں اور تاحال وہ رپورٹس ٹریس نہیں ہو سکیں اور نہ وزارت داخلہ میں یہ رپورٹس مل سکی ہیں۔
چیئرمین کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ موجود قانون میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جو جبری گمشدگی کے معاملے کو دیکھ سکے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ہم جبری گمشدگیوں کے خلاف ہیں اس طرح جبری گمشدگی سے لاپتا افراد کے خاندان متاثر ہو رہے ہیں۔ شیریں مزاری نے کہا کہ وزیر اعظم بھی جبری گمشدگیوں کے معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کو کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر کچھ تحفظات کے ساتھ دستخط کرنے کا کہا ہے۔
پاکستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ ایک عرصہ سے زیر بحث ہے اور اب بھی سینکڑوں افراد لاپتا ہیں جن کے لواحقین ان کی تلاش میں دربدر پھرتے رہے ہیں۔ اس معاملے پر کمشن بننے اور عدالتی احکامات کے باوجود اب بھی ایک بڑی تعداد اپنے پیاروں کی آنکھوں سے اوجھل ہے اور ان کے متعلق کسی کو نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔