پاکستان میں اس وقت ڈیڑھ سو سے زائد تاریخی گردوارے ہیں تاہم جہاں سکھ برادری آباد ہے وہاں صرف سولہ گردوارے زیر استعمال ہیں۔
پاکستان میں آباد اقلیتی سکھ برادری کے رہنماؤں نے امریکی ریاست وسکانسن میں سکھوں کے گردوارے پر حملے اور اس میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں پر حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
بابا گرونانک ویلفیئر سوسائٹی پاکستان کے چیئیر مین بھشن سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کو چھٹی کی وجہ سے گردواروں میں عمومی طور پر عبادت کرنے والوں کا رش ہوتا ہے اس لیے مسلح شخص نے یہ قابل مذمت کارروائی کرنے کے لیے اسی دن کا انتخاب کیا۔
’’گردوارے پر جو حملہ ہوا ہے ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، صرف گردوارے پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی مذہبی جگہ پر خواہ وہ گردوارہ ہو، چرچ، مندر یا مسجد۔ وہ رب کا گھر ہے اور اس میں جو لوگ عبادت کرتے ہیں ان پر دہشت گردوں کا حملہ بڑے ظلم اور افسوس والی بات ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ بطور سکھ برداری کے ایک نمائندے کے وہ دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
’’پچھلے دنوں (امریکہ) میں ایک سینما گھر پر حملہ ہوا تھا جس میں بے گناہ لوگوں کو مارا گیا، ہم دہشت گردی کی پر زور مذمت کرتے ہیں، خواہ وہ امریکہ میں ہو، پاکستان میں ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ کیوں کہ کسی بے گناہ پر گولی چلانے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔‘‘
بھشن سنگھ نے کہا کہ امریکہ میں ستمبر 2011ء میں ’نائن الیون‘ کے حملے کے بعد سکھ برادری کے خلاف پرتشدد واقعات کے تناظر میں امریکی حکام کو سکھوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے انتظامات سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
’’یہ جو پہلے نیویارک میں ایک مسئلہ ہوا تھا اس میں بھی سکھوں کو قتل کیا گیا تھا۔ کیوں کہ سکھوں کی بھی داڑھی ہوتی ہے، مسلمانوں کی بھی داڑھی ہوتی ہے۔ امریکی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں سکھ ، مسلمان یا دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہ رہے ہوں ان کی اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔‘‘
بھشن سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ڈیڑھ سو سے زائد تاریخی گردوارے ہیں تاہم جہاں سکھ برادری آباد ہے وہاں صرف سولہ گردوارے زیر استعمال ہیں۔
سکھ مت 500 سال پرانا مذہب ہے اور اس کے بانی بابا گرو نانک کی پیدائش صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں ہوئی جہاں ہر سال بھارت سمیت دنیا بھر سے بڑی تعداد میں سکھ یاتری آتے ہیں۔
سکھوں کی ایک اور مقدس عبادت گاہ ’پنجہ صاحب‘ حسن ابدال میں ہے جہاں بابا گرو ناننک نے قیام کیا تھا۔
بھشن سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ہوئے ہیں مگر نا تو سکھوں کی عبادت گاہوں اور نہ ہی ان کی برادری کو اب تک اس کا نشانہ بنایا گیا جس پر وہ حکومت پاکستان کے اقدامات کے مشکور ہیں۔
’’ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب پر ہر سال تقریباً 25 سے 30 ہزار سکھ یاتری پاکستان سے آتے ہیں لیکن کبھی (دہشت گردی کا) واقعہ پیش نہیں آیا اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی پاکستانی حکومت گردواروں کی حفاظت کے لیے یونہی اقدامات کرتی رہے گی۔‘‘
بھشن سنگھ نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں آباد سکھوں کو امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے مگر ان کے بقول خطے کے حالات سے سب ہی فرقے یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں لگ بھگ 20 ہزار سکھ آباد ہیں جن کی اکثریت پشاور اور ننکانہ صاحب میں ہے۔
بابا گرونانک ویلفیئر سوسائٹی پاکستان کے چیئیر مین بھشن سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کو چھٹی کی وجہ سے گردواروں میں عمومی طور پر عبادت کرنے والوں کا رش ہوتا ہے اس لیے مسلح شخص نے یہ قابل مذمت کارروائی کرنے کے لیے اسی دن کا انتخاب کیا۔
’’گردوارے پر جو حملہ ہوا ہے ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، صرف گردوارے پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی مذہبی جگہ پر خواہ وہ گردوارہ ہو، چرچ، مندر یا مسجد۔ وہ رب کا گھر ہے اور اس میں جو لوگ عبادت کرتے ہیں ان پر دہشت گردوں کا حملہ بڑے ظلم اور افسوس والی بات ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ بطور سکھ برداری کے ایک نمائندے کے وہ دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
’’پچھلے دنوں (امریکہ) میں ایک سینما گھر پر حملہ ہوا تھا جس میں بے گناہ لوگوں کو مارا گیا، ہم دہشت گردی کی پر زور مذمت کرتے ہیں، خواہ وہ امریکہ میں ہو، پاکستان میں ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ کیوں کہ کسی بے گناہ پر گولی چلانے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔‘‘
بھشن سنگھ نے کہا کہ امریکہ میں ستمبر 2011ء میں ’نائن الیون‘ کے حملے کے بعد سکھ برادری کے خلاف پرتشدد واقعات کے تناظر میں امریکی حکام کو سکھوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے انتظامات سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
’’یہ جو پہلے نیویارک میں ایک مسئلہ ہوا تھا اس میں بھی سکھوں کو قتل کیا گیا تھا۔ کیوں کہ سکھوں کی بھی داڑھی ہوتی ہے، مسلمانوں کی بھی داڑھی ہوتی ہے۔ امریکی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں سکھ ، مسلمان یا دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہ رہے ہوں ان کی اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔‘‘
بھشن سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ڈیڑھ سو سے زائد تاریخی گردوارے ہیں تاہم جہاں سکھ برادری آباد ہے وہاں صرف سولہ گردوارے زیر استعمال ہیں۔
سکھ مت 500 سال پرانا مذہب ہے اور اس کے بانی بابا گرو نانک کی پیدائش صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں ہوئی جہاں ہر سال بھارت سمیت دنیا بھر سے بڑی تعداد میں سکھ یاتری آتے ہیں۔
سکھوں کی ایک اور مقدس عبادت گاہ ’پنجہ صاحب‘ حسن ابدال میں ہے جہاں بابا گرو ناننک نے قیام کیا تھا۔
’’ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب پر ہر سال تقریباً 25 سے 30 ہزار سکھ یاتری پاکستان سے آتے ہیں لیکن کبھی (دہشت گردی کا) واقعہ پیش نہیں آیا اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی پاکستانی حکومت گردواروں کی حفاظت کے لیے یونہی اقدامات کرتی رہے گی۔‘‘
بھشن سنگھ نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں آباد سکھوں کو امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے مگر ان کے بقول خطے کے حالات سے سب ہی فرقے یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں لگ بھگ 20 ہزار سکھ آباد ہیں جن کی اکثریت پشاور اور ننکانہ صاحب میں ہے۔