مبصرین کے مطابق جنوبی کوریا کے وزیراعظم کا دورہ خطے کی موجودہ صورتحال خصوصاً اقتصادی ترقی کے فروغ کے ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اسلام آباد —
جنوبی کوریا کے وزیراعظم چُنگ ہونگ وُن چار روزہ سرکاری دورے پر اتوار کو اسلام آباد پہنچے۔
1983ء میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد جنوبی کوریا کے کسی وزیراعظم کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔
اس دورے میں وہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کریں گے جب کہ ان کے ہمراہ آنے والے وفد میں شامل اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور کاروباری شخصیات کے پاکستانی عہدیداروں سے مذاکرات بھی طے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں اور جنوبی کوریا کی بہت سی کمپنیاں پاکستان میں کیمیائی صنعت، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کے مختلف مںصوبوں میں سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔
مبصرین کے مطابق جنوبی کوریا کے وزیراعظم کا دورہ خطے کی موجودہ صورتحال خصوصاً اقتصادی ترقی کے فروغ کے ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
سینیئر تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جنوبی کوریا نے پہلے بھی پاکستان میں بہت سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس دورے کے نتیجے میں ہونے والی سرمایہ کاری سے پاکستان کو اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
"عالمگیریت کے اس دور میں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب آ چکے ہیں۔۔۔ پاکستان بھی اقتصادی و معاشی طور پر اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور میرا خیال ہے یہ بہتر موقع ہو گا کہ دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت بہتر مواقع ڈھونڈ کر اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی اور صنعتی شعبوں میں آگے آنے کی کوشش کریں گے تاکہ پاکستان جو اقتصادی بحران کا شکار ہے اس سے عہدہ برآ ہو سکے۔"
گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے دہشت گردی اور توانائی کے بحران سے متاثرہ ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اقدامات کو اپنی ترجیحات میں سے ایک بیان کیا تھا۔
وزیراعظم اس دوران مختلف ملکوں کے دوروں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے آئے ہیں اور ان کے بقول بیرونی سرمایہ کاروں کو منافع بخش ماحول اور ان کے سرمائے کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان میں چین اور خلیجی ممالک کے سرمایہ کار بھی خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کر چکے ہیں جبکہ امریکہ بھی مختلف شعبوں خصوصاً توانائی کے شعبے میں پاکستان کو معاونت فراہم کرتا چلا آرہا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق جنوبی کوریا کے ساتھ دو طرفہ سالانہ تجارتی حجم ارب ڈالر سے زائد ہے جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی و تجارتی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
1983ء میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد جنوبی کوریا کے کسی وزیراعظم کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔
اس دورے میں وہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کریں گے جب کہ ان کے ہمراہ آنے والے وفد میں شامل اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور کاروباری شخصیات کے پاکستانی عہدیداروں سے مذاکرات بھی طے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں اور جنوبی کوریا کی بہت سی کمپنیاں پاکستان میں کیمیائی صنعت، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کے مختلف مںصوبوں میں سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔
مبصرین کے مطابق جنوبی کوریا کے وزیراعظم کا دورہ خطے کی موجودہ صورتحال خصوصاً اقتصادی ترقی کے فروغ کے ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
سینیئر تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جنوبی کوریا نے پہلے بھی پاکستان میں بہت سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس دورے کے نتیجے میں ہونے والی سرمایہ کاری سے پاکستان کو اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
"عالمگیریت کے اس دور میں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب آ چکے ہیں۔۔۔ پاکستان بھی اقتصادی و معاشی طور پر اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور میرا خیال ہے یہ بہتر موقع ہو گا کہ دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت بہتر مواقع ڈھونڈ کر اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی اور صنعتی شعبوں میں آگے آنے کی کوشش کریں گے تاکہ پاکستان جو اقتصادی بحران کا شکار ہے اس سے عہدہ برآ ہو سکے۔"
گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے دہشت گردی اور توانائی کے بحران سے متاثرہ ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اقدامات کو اپنی ترجیحات میں سے ایک بیان کیا تھا۔
وزیراعظم اس دوران مختلف ملکوں کے دوروں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے آئے ہیں اور ان کے بقول بیرونی سرمایہ کاروں کو منافع بخش ماحول اور ان کے سرمائے کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان میں چین اور خلیجی ممالک کے سرمایہ کار بھی خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کر چکے ہیں جبکہ امریکہ بھی مختلف شعبوں خصوصاً توانائی کے شعبے میں پاکستان کو معاونت فراہم کرتا چلا آرہا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق جنوبی کوریا کے ساتھ دو طرفہ سالانہ تجارتی حجم ارب ڈالر سے زائد ہے جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی و تجارتی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔