پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے، پرویز مشرف کو 31 مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اس مقدمے کی سماعت منگل کو جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے کی، جس میں استغاثہ کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ اب جب کہ باضابطہ کارروائی کے بعد ملزم پرویز مشرف کے خلاف شہادت عدالت میں پیش کر دی گئی ہے، لہذا سابق فوجی صدر کو عدالت میں طلب کیا جائے۔
اس موقع پر سابق صدر کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے موکل کی صحت خراب ہے اس لیے انھیں عدالت میں طلب کرنے کے معاملے کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔
تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ وکیل صفائی کی طرف سے اس بارے میں کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی۔
سماعت کے بعد فیصل چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابق صدر کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے اور یہ بات ان کے لیے تشویش کا باعث ہے، اسی لیے انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ سابق صدر کی طلبی کے معاملے کو ملتوی کر دیا جائے۔
ان کے بقول پرویز مشرف کے وکلا کی ٹیم منگل کو عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے حکم کے بعد آئندہ کے لائحہ عملکے بارے میں مشاورت کرے گی۔
سابق فوجی صدر پر الزامہے کہ اُنھوں نے نومبر 2007ء میں ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کی۔ تین رکنی خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014ء کو پرویز مشرفپر فرد جرم عائد کی تھی تاہم وہ ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
حکومت نے سابق فوجی صدر کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کے لیے نومبر 2013 میں ایک تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی تھی، جس نے دسمبر 2013 میں مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع کی تھی۔
پرویز مشرف ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں اور گزشتہ ماہ وہ ناسازی طبع کے باعث متعدد بار اسپتال جا چکے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ہی سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کو شریک ملزمان قرار دینے کے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب ’آئینی شکنی‘ کے مقدمے میں سابق صدر پرویز مشرف واحد نامزد ملزم رہ گئے ہیں۔