افغانستان میں قیامِ امن اور استحکام کے لیے پاکستان نے ایک کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کو ٹیلی فون کرکے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا ہے کہ افغانستان میں استحکام کے لیے ہونے والی مجوزہ کانفرنس میں حامد کرزئی سمیت اعلیٰ افغان قیادت کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان پر مجوزہ تین روزہ کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہو گا جس میں پاکستان کے لیے افغانستان کے نمائندہ خصوصی محمد عمر داؤدزئی، سابق وزیرِ داخلہ ڈاکڑ حضرت عمر زخیلوال، صلاح الدین ربانی، ہزارہ برادری کے سینئر رہنما حاجی محقق، گل بدین حکمت یار اور احمد ولی مسعود کی شرکت متوقع ہے۔
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس کانفرنس کے نتیجے میں افغانستان کے مسائل کے حل کی نئی امید پیدا ہوگی۔
واضح رہے کہ اس مجوزہ کانفرنس کے لیے تاحال پاکستان کی جانب سے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے اس کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں عروج پر ہیں اور طالبان افغانستان کے 85 فی صد علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
بدھ کو طالبان نے پاکستان کی سرحد کے قریب اسپین بولدک کے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے طالبان کے حملے کو ناکام بنا دیا ہے اور علاقہ بدستور افغان فورسز کے کنٹرول میں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان عوام کو مزید خونریزی سے بچانے کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تصفیے کے لیے کوشاں ہے۔
درپردہ رابطے
اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کی ڈائریکٹر اور افغان امور کی ماہر امینہ خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے اچانک افغانستان سے جانے کے فیصلے نے خطے کے تمام ممالک کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ممالک نے طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی شروع کر دی ہے۔
امینہ خان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد کانفرنس کا مقصد ہے کہ افغانستان میں کسی بھی طریقے سے فریقین کو مثبت اور نتیجہ خیز بات چیت پر آمادہ کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک بھی افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ پاکستان صرف فریقین کو ایک دوسرے کے سامنے بٹھا سکتا ہے۔ افغانستان کے مسائل کا حل وہاں کے لوگوں کو مل بیٹھ کر کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کابل حکومت اور طالبان دونوں کو بات چیت میں لچک کامظاہرہ کرنا ہو گا۔
امینہ خان کے بقول موجودہ حالات میں افغانستان میں اسی صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے جب تمام دھڑوں کو حکومت سازی میں مناسب نمائندگی ملے۔
دوسری جانب برطانوی وزیرِ دفاع بین ویلس نے ’دی ٹیلی گراف‘ کو انٹرویو میں بتایا ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امن کی خاطر شراکت دار بننا پڑتا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کی افغان پالیسی میں 'تبدیلی'، سیاسی بیان بازی یا ریاستی فیصلہ؟تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں وہ تعلقات کا ازسر نو جائزہ بھی لے سکتے ہیں۔
امینہ خان برطانوی وزیرِ دفاع کے مؤقف کو سراہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو بھی یہ نظر آ رہا ہے کہ مستقبل میں طالبان اگر مکمل اقتدار میں نہیں آتے تو وہ کسی نہ کسی صورت میں حکومت سازی کا حصہ ضرور ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ خطے کے دیگر ممالک بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
طالبان کی حکمتِ عملی
سینئر تجزیہ نگار اور افغان امور کے ماہر نجیب اللہ آزاد کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان میں شدید لڑائی جاری ہے۔ لیکن طالبان ابھی تک کہیں بھی اپنا مستقل کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے کسی صوبائی ہیڈ کوارٹر کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ لڑائی کا سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو ہو رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان اپنے ہی ملک میں دربدر ہو گئے ہیں۔ عام لوگوں کی املاک تباہ ہوئی ہیں اور لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے اہم سرحدی اور تجارتی گزرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے جس کے باعث افغانستان کا تجارتی رابطہ قریبی ممالک سے کٹ چکا ہے۔ اسی وجہ سے خوراک اور دواؤں کی کمی کی شکایات ملنا شروع ہو گئی ہیں۔
نجیب اللہ آزاد کا مزید کہنا تھا کہ چاہے دوحہ ہو یا اسلام آباد ایسی کانفرنسز سے اعتماد سازی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ لڑائی جاری رکھنے سے ختم نہیں ہوتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں طالبان بھی امن اور بات چیت کے خواہاں ہیں لیکن موجودہ خلا کو پر کرنے کے لیے انہوں نے جنگی کارروائیاں تیز کردی ہیں تاکہ اگلے دو ماہ میں اپنی اس پیش قدمی کا مذاکرات کی میز پرفائدہ اٹھا سکیں۔