پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت چین کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے کو ملک کے لیے انتہائی اہم خیال کرتی ہے مگر بعض تجزیہ کار اب بھی متنبہہ کر رہے ہیں کہ پاکستان چین کے قرضوں کی سطح اس حد تک نہ لے جائے جہاں ان قرضوں کی واپسی ناممکن ہو جائے اور پاکستان کو بڑی قیمت چکانا پڑے، جیسے گوادر کو لمبی مدت کے لیے چین کو لیز پر دینا۔
وائس آف امریکہ نے پاکستان کے سی پیک پر بڑھتے ہوئے انحصار کے ضمن میں تجزیہ کاروں سے گفتگو کی۔ پروفیسررونی ٹھاکر، نئی دہلی یونیورسٹی میں چین سے متعلق امور پڑھاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہےکہ ملائشیا کے راہنما مہاتیر محمد اقتدار میں واپس آنے کے بعد چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ عمران خان نے بھی انتخابی مہم میں سی پیک منصوبے میں شفافیت لانے اور پاکستان کے مفادات کے تعین کی بات کی تھی اور اب یہ معاملہ پاکستان کے اندر اٹھایا جا رہا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ چین کا رویہ جارحانہ ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی جارحانہ ہے اور وہ او آراوبی منصوبے کے ذریعے خطے کے کمزور ملکوں کو اپنا محتاج بنا رہا ہے۔
پروفیسر ٹھاکر کہتی ہیں کہ کیا پاکستان کے عوام غیر معمولی قرضوں کے عوض سو سال کے لیے گوادر جیسی بندرگاہ چین کے حوالے کرنے کو تیار ہیں؟
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو کچھ کرنا ہو گا۔ پاکستان کو اگر عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ نہیں ملتا جیسا کہ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے واضح بھی کر دیا کہ آئی ایم ایف کا قرضہ چین کو ادائیگیوں میں استعمال کے لیے نہیں دے سکتے۔ اگر پاکستان چین کا قرضے واپس نہیں کر پاتا تو کیا اس کے عوام سو سال کے لیے گوادر کا بندرگاہی شہر چین کے حوالے کر دیں گے، بطور قرض واپسی؟
پروفیسر رونی ٹھاکر کے بقول افریقہ میں جبوتی کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ سری لنکا کا جزیرہ ہمبنٹوٹا چین کو 99 سال کی لیز پر دے دیا گیا ہے اور اب سنا ہے کہ کرغزستان کے قرضے بھی چین معاف کر رہا ہے۔
کرنل (ریٹائرڈ) مقبول آفریدی کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ پاکستان فیڈریشن آف چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سی پیک پر سٹیرنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں اور اس منصوبے پر تواتر سے اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سی پیک کے خلاف بہت سے تحفظات پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔
ان کے بقول یہ کہنا کہ گوادر چین کے پاس چلا جائے گا، پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قرضوں کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ اسی طرح گوادر جیسی بندرگاہ کو چین کی تجارتی سرگرمیوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ امریکہ جیسے ملکوں کو بھی کاروبار کا حصہ بنائے جائے۔ گوادر کو چائنا سٹی نہیں بلکہ انٹرنیشنل سٹی بنایا جائے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا اقتصادی منصوبہ ہے ۔ اس میں عوام نے شرکت کرنی ہے تو اس معاہدے کی شرائط واضح ہونی چاہییں۔
کرنل مقبول کے بقول یہ بہت اچھا منصوبہ ہے اور اس کو مکمل ہونا چاہیے مگر اسے چین اور پاکستان دونوں کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو تجزیہ کرنا ہو گا کہ سرمایہ کاری کتنی ہے اور اس سے فائدہ کتنا حاصل ہو رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا تو فریق وقت گزرنے کے ساتھ مزاحمت کریں گے۔
ڈاکٹر نور فاطمہ بین الاقوامی امور کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سی پیک کی اہمیت سے انکار نہیں۔ لیکن اس کے بارے میں نظرثانی کا مطلب غلط بیان کیا جاتا ہے۔ نظر ثانی شرائط پر ہو سکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے مگر ظاہر ہے اب منصوبہ پر کام ہو رہا ہے۔ منصوبے پر نظر ثانی کی گنجائش نہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے گزشتہ روز ایک تجزیاتی رپورٹ میں بتایا کہ تین ایشیائی ممالک میں حال ہی میں برسراقتدار آنے والی قیادتیں اپنے اپنے ملکوں میں چین کی سرمایہ کاری یا قرضوں میں عدم توازن پر اپنی انتخابی مہم میں تحفظات ظاہر کرتی آئی ہیں اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو بھی ایک حد میں رکھنے کی بات کرتی رہی ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے جس طرح ترقیاتی منصوبے ان ملکوں میں شروع کر رکھے ہیں، شاید ہی بیجنگ کے اثر ورسوخ کو کم کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق ملائشیا کے راہنما مہاتیر محمد، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور مالدیپ کے ابراہیم محمد صالح کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ نئے مینڈیٹ کے ساتھ ان ترقیاتی منصوبوں میں چین کی غیر معمولی سرمایہ کاری محدود کر سکیں یا اس سے باہر نکل سکیں۔