بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم ’سپارک‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ’سلیوری‘ یعنی غلامی کی عالمی ’انڈکس 2016ء‘ کے مطابق پاکستان میں 21 لاکھ لوگ جبری مشقت کا شکار ہیں، جس میں ایک کثیر تعداد بچوں کی بھی ہے۔
سپارک کے مطابق صرف پاکستان کے بڑے شہروں میں ’اسٹریٹ چلڈرن‘ کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے اور تنظیم کے مطابق اُن میں سے بہت سے بچے جبری مشقت میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق رپورٹ تیار کرنے والے محقق اور ’سپارک‘ سے وابستہ فرشاد اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ایک تجویز تو یہ ہے کہ جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے تو آپ اس چیز سے جوڑ دیں کہ جو خاندان بچوں کو تعلیم نہیں دے اُسے (امدادی) رقم نہیں دی جائے گی۔‘‘
فرشاد اقبال کہتے ہیں کہ انسانی فلاح و ترقی کے منصوبوں پر بھی کام کی ضرورت ہے۔
’’ہم ہیومن کیپیٹل ڈویلپمنٹ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہیومن کیپیٹل ڈویلپمنٹ انڈیکس 2017ء جو ابھی حال ہی میں آئی ہے اس میں ہمارا درجہ 125 ہے۔ 130 سب سے کم درجہ ہے۔ ہم سب سے کم ترین درجے پر پہنچنے والے ہیں۔ جب تک آپ کی قوم کی صحت کی سہولیات بہتر نہیں ہوں گی، تعلیم بہتر نہیں ہو گی۔ ملک ترقی نہیں کرے گا۔ غربت کم نہیں ہو گی اور جب تک غربت کم نہیں ہو گی نہ بچوں سے مشقت کم ہو گی نہ جبری مشقت کم ہو گی۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
اس موضوع پر اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزارت برائے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل حسن منگی نے کہا کہ حکومت بچوں کی جبری مشقت کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان کا موقع پر کہنا تھا کہ اس بات پر زور دیا کہ غربت کے خاتمے پر کیے جانے والے اقدامات کو مزید فعال بنایا جائے تاکہ اس سے منسلک مسائل حل ہوسکیں جس میں بچوں کی جبری مشقت بھی شامل ہے۔