|
پاکستان، گوادر کی بندرگاہ تک تجارتی سر گرمیوں کو راغب کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ ملک کے جنوب مغرب میں یہ بندرگاہ چین کی فنڈنگ سے تعمیر کی گئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی عدم تحفظ ، بنیادی سروسز کا فقدان اور بندر گاہ کو خوشحال بنانے کے منصوبوں کی عدم موجودگی تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کی راہ میں حائل ہو رہی ہیں۔
پاکستان کے منصوبہ بندی و ترقیاتی امور کے وزیر احسن اقبال کی زیر صدارت ایک میٹنگ کے بعد جاری ایک بیان سے ظاہر ہوا کہ حکام کے پاس 2016 میں اس بندر گاہ کے ذریعے پہلے تجارتی بحری جہازوں کے گزرنے کے لگ بھگ دس سال بعد تجارت کو اس پورٹ تک لانے کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ، احسن اقبال نے گوادر پورٹ کے لیے کمرشل تجزیے اور کسی جامع آپریشنل پلان کے فقدان کی نشاندہی کی اور اس کی صلاحیتوں کے استعمال کے مواقع تلاش کرنے کی فوری کوششوں پر زور دیا۔ بیان کے مطابق احسن اقبال نے چھ ماہ کے اندر تجارتی سرگرمیاں پیدا کرنے کا ایک منصوبہ تیار کرنے کا حکم دےدیا ہے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے گوادر میں بحری تجارتی سر گرمیاں بڑھانے کی کوشش میں منگل کو کابینہ کے ایک اجلاس میں کہا کہ پبلک سیکٹر کی 60 فیصد امپورٹس اور ایکسپورٹس کو اس بندر گاہ سے گزرنا چاہیے۔
گزشتہ اگست میں انہوں نے کابینہ کے ایک اجلاس میں حکم دیا تھا کہ کم از کم 50 فیصد پبلک کارگو کو اس بندر گاہ سے گزرنا چاہیے
گوادر میں تجارتی سرگرمیوں میں کمی کیوں؟
گوادر کی بندر گاہ جو 2007 میں لگ بھگ 250 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوئی تھی، اور جسے 2013 سےچین کی اوور سیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی چلاتی ہے، پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بحیرہ عرب کے گرم پانیوں پر واقع ہے ۔
گوادر شہر کے اندر اور اس کے ارد گرد انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر اضافی ایک ارب ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجو د پاکستان کی بحری امور کی وزارت کی مالی سال 2022۔2023 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ سمندر کے ذریعے پاکستان کی تجارت کے ایک فیصد سے بھی کم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
گوادر بنیادی طور پر کمرشل نہیں بلکہ جیو پولیٹیکل منصوبہ تھا
سڈنی میں قائم یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک ماہر محمد فیصل پاکستان کے حکومتی سسٹم میں دیر پامنصوبہ بندی کی عدم موجودگی کو اس بندر گاہ کی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گوادر شروع ہی سے خالصتاً ایک کمرشل منصوبےکی بجائے ایک جیو پولیٹیکل منصوبہ تھا۔
انفرا اسٹرکچر اور افرادی قوت کی کمی
اس بندر گاہ کی تجارتی سر گرمیوں میں کمی پر وی او اے سے بات کرتے ہوئےسابق وزیر اعظم خاقان عباسی نے کہا کہ اس بندرگاہ میں بڑے پیمانے کے مال بردار جہازوں کو ہینڈل کرنے کے لیے انفرااسٹرکچر اور افرادی قوت کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، جب تک آپ وہاں تین سے چار ارب ڈالر تک خرچ نہیں کریں گے اور اسے ایک ورلڈ کلاس پورٹ نہیں بنائیں گے ، آپ اسے در حقیقت ایک بندر گاہ نہیں کہہ سکتے ۔
رپورٹس کے مطابق گوادر پورٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی 2045 تک بحری جہازوں کی لنگر اندازی کے لیے کل 100 عرشے تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔
گوادر ائیر پورٹ پر آمد ورفت میں کمی
گوادر ائیر پورٹ پر تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے وہاں رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ائیرپورٹ بنایا گیا تھا لیکن اسے بھی ابھی زیادہ تر استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایوی ایشن ویب سائٹ اسکائی اسکینر میں اس بڑے ائیر پورٹ سے ہفتے میں تین پروازیں کراچی اور ایک بین الاقوامی پرواز عمان کے لئے دکھائی گئی ہے ۔
چین کی 230 ملین ڈالر کی گرانٹ سے تعمیر شدہ نئے گوادر انٹر نیشنل ائیر پورٹ کا افتتاح گزشتہ ماہ ہوا اس سے قبل اسے کئی بار موخر کیا گیا۔
منصوبہ بندی کی وزارت کے ایک بیان میں بدھ کے روز کہا گیا کہ احسن اقبال نے گوادر کے سستے تجارتی راستوں اور بین الاقوامی کاروباروں کے لیے ممکنہ مراعات کی تشہیر کے لیےمارکیٹنگ ٹیمپلیٹس اور پیکجز کی تیاری کی ہدایت کی ہے۔
SEE ALSO: نئے گوادر ایئرپورٹ میں جمعے سے فلائٹ آپریشنز کا آغاز؛ یہ ہوائی اڈہ کتنا اہم ہے؟سہولیات اور سیکیورٹی کا فقدان
عباسی نےجو ایک ایوی ایشن ایکسپرٹ بھی ہیں وی او اے کو بتایا کہ اگرچہ گوادر پورٹ کے ساتھ ایک نیا ائیر پورٹ طویل المدت کے لئے اہمیت کاحامل ہے لیکن پانی ، بجلی اور شہر میں سیکیورٹی جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان اسے ائیر لائنز کے لیے ایک غیر پرکشش منزل بنا دیتا ہے ۔
عباسی نے کہا کہ ائیر لائنز کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ائیر پورٹ پر جانے اورآنے کے لیے مسافر موجود ہوں جب کہ کوئی بھی مسافر گوادر آنا یا وہاں سے روانہ ہونا نہیں چاہتا ۔
بلوچستان صوبہ جہاں گوادر واقع ہے، دو عشروں سے علیحدگی پسندوں کی شورش کی لپیٹ میں ہے اور حالیہ مہینوں میں وہاں تشدد میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ حال ہی میں کم از کم چھ لوگ ، جن میں سے بیشتر سیکیورٹی اہلکار تھے اور 8 عسکریت پسند اس وقت ہلاک ہوئے جب پاکستانی فورسز نے بندر گاہ کے قریب واقع گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر ایک حملے کو ناکام بنایا۔
SEE ALSO: بلوچستان میں نیا آپریشن؛ 'علیحدگی پسند تنظیمیں فوج کو اُکسا رہی ہیں'کیا گوادر پورٹ سری لنکا کی ہمبنٹوٹا پورٹ جیسا مسئلہ بن سکتی ہے ؟
گوادر پورٹ چین کو مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے ایک چھوٹا راستہ فراہم کرتی ہے۔
اس بندرگاہ اور ہوائی اڈے کو بین الاقوامی کاروباروں کے لیے مارکیٹ کرنے میں پاکستان کی ناکامی کے باوجود، سڈنی میں مقیم ماہر فیصل کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ کی طرح کا مسئلہ نہیں بن سکتا، جسے بیجنگ نے 2017 میں اس وقت اپنے کنٹرول میں لیا تھا جب کولمبو اس سے منسلک قرض ادا کرنے میں ناکام ہوگیا تھا۔
اسلام آباد میں قائم پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید کا کہنا ہے کہ گوادر میں کاروبار کی سست رفتار دو طرفہ تعلقات کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
SEE ALSO: گوادرایرپورٹ دونوں ملکوں کے قریبی تعاون کی علامت ہے: چینی وزیر اعظمانہوں نے کہا کہ ریاستوں کے باہمی تعلقات کا انحصار دیر پا اسٹریٹیجک مفادات پر ہوتا ہے۔ کوئی ایک واقعہ ، کوئی ایک پراجیکٹ ، یا کوئی ایک مثال ریاستوں کے باہمی تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
وی او اے