|
کوئٹہ -- پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی تحصیل زہری میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے حملے کے بعد سرچ آپریشن جاری ہے جب کہ علاقے میں سیکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔
بلوچستان حکومت نے زہری واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جب کہ کوتاہی برتنے والی مقامی انتظامیہ کے خلاف تادیبی کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ بدھ کی دوپہر مسلح افراد نے لیویز تھانے، نادرا آفس سمیت دیگر املاک کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔ مسلح افراد نے زہری کے بازار میں داخل ہو کر لوگوں کو ہراساں بھی کیا جب کہ سرکاری اہلکاروں کو بھی یرغمال بنا لیا تھا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے حالیہ کارروائیوں میں اضافے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کی افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
زہری واقعے پر ردِ عمل دیتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا ہے کہ عوام کے تحفظ اور ریاستی رٹ کی بحالی اولین ترجیح ہے۔
زہری میں حملہ کب اور کیسے ہوا؟
"تمہارے ہاتھوں میں موبائل کے بجائے آج ہماری طرح بندوق ہونی چاہیے تھی۔"
یہ مسلح افراد کی تقریر کا وہ حصہ ہے جو انہوں نے بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زہری میں فورسز اور سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے بعد کی۔
جو لوگ زہری لیویز تھانے کے باہر یہ تقریر سن رہے تھے ان میں سے ایک عینی شاہد نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرکاری عمارتوں پر حملے کا واقعہ بدھ کی دوپہر 12 بج کر 45 منٹ پر پیش آیا جب مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر زہری بازار میں داخل ہونے۔
ان کے بقول مسلح افراد میں سے ایک شخص جو بظاہر ان کا لیڈر تھا، "وہ کہہ رہے تھے کہ اس حکومت نے تم لوگوں کو کیا دیا ہے؟ تعلیم اور صحت کا حال تمہارے سامنے ہے۔"
عینی شاہد نے بتایا کہ "مسلح افراد لوگوں کو دعوت دے رہے تھے کہ اس حکومت کو چھوڑ دو اور ہماری صفوں میں شامل ہو جاؤ۔"
ان کے مطابق نقاب پوش مسلح افراد کی تعداد 100 یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلح افراد زہری بازار میں داخل ہوئے تو بازار میں رش تھا اور لوگ خریداری میں مصروف تھے۔
پہلے تو لوگ خوف کا شکار ہو گئے تاہم مسلح افراد کی جانب سے براہوی زبان میں بات کی گئی تقریر کے بعد عام شہریوں نے ان کے ہمراہ سیلفی لینا شروع کی اور ان کی ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔
"ایکس" اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے چند ویڈیو کلپس میں بھی یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی لوگ مسلح افراد کی تقریر غور سے سن رہے ہیں۔
ان ویڈیو کلپس کی تاحال آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
بلوچستان میں شدت پسندی بڑھنے پر گزشتہ برس نومبر میں پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی تھی۔
زہری ٹاؤن کہاں ہے؟
خضدار کی تحصیل زہری بلوچستان کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔
یہ خضدار شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر جب کہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 300 کلومیٹر دور ہے۔
تحصیل زہری بلوچستان کے چیف آف جھالاوان اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا آبائی علاقہ ہے۔
پہاڑی اور صحرائی خطے پر مشتمل تحصیل زہری کی کل آبادی تین لاکھ کے قریب ہے۔
یاد رہے کہ سال 2013 میں زہری کے علاقے میں سابق وزیر اعلٰی اور رکن صوبائی اسمبلی نواب ثناء اللہ زہری کے قافلے پر ایک بم حملے میں ان کا جواں سال بیٹا، بھتیجا اور بھائی سمیت چار افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
سرکاری اور نجی املاک کو کتنا نقصان پہنچا؟
زہری بازار میں مسلح افراد نے سب سے پہلے لیویز تھانے پر حملہ کیا اور وہاں موجود لیویز فورس کو یرغمال بنایا۔
لیویز فورس کے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ معمول کے مطابق لیویز تھانے میں موجود تھے کہ دو درجن سے زائد نقاب پوش مسلح افراد تھانے پر حملہ آور ہوئے اور 12 کے قریب اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔
ان کے مطابق: حملہ آوروں نے تھانے کا ریکارڈ ضبط کیا اور بعد ازاں تھانے کو آگ لگا دی۔
لیویز اہلکار کے بقول مسلح افراد نے انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا بس ان سے اسلحہ چھین لیا گیا اور تھانے میں کھڑی چھ گاڑیاں اپنے ہمراہ لے گئے۔
سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی زیرِ گردش ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح افراد تھانے کی گاڑیاں اپنے ہمراہ لے جا رہے ہیں۔
حملہ آوروں نے ایک نجی بینک، نادرا آفس اور موبائل ٹاور پر بھی حملہ کیا۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ مسلح افراد نے نادرا آفس کے تمام ریکارڈ کو آگ لگا دی۔
اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے 30 لاکھ روپے نقدی لوٹ لی ہے تاہم بینک انتظامیہ کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔
علاقے میں سرچ آپریشن
زہری سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی صحافی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسلح افراد نے سرکاری اور نجی عملے کو مسلسل تقریباً پانچ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔
ان کے بقول: واقعے کے بعد علاقے میں فورسز نے فضائی نگرانی بھی شروع کردی ہے اور زہری ٹاؤن میں فورسز کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے گشت کرتے دیکھا گیا ہے۔
واقعے کے بعد ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر اقبال دشتی لیویز اور ایف سی فورسز کے ہمراہ زہری پہنچ گئے۔
فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور داخلی راستوں پر ناکے لگا کر ملزمان کی تلاش شروع کردی۔
بلوچستان میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے حملے میں اضافہ کیوں؟
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کی جانب سے کارروائیوں میں اضافے سے بظاہر لگتا ہے کہ ان کی افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رشید بلوچ کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران صوبے میں بد امنی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ 2024 میں بی ایل اے کی جانب سے بیک وقت 18 سے 20 مقامات پر حملے کیے گئے۔
اس سے قبل مچھ میں بھی حملہ آور دن کی روشنی میں شہر میں داخل ہوئے اور گلی محلوں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیے۔
زہری واقعے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ یہ واقعہ سیکیورٹی لیپس کی وجہ سے رونما ہو ا ہو تاہم بلوچستان کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے لیے ہر جگہ سیکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہے۔
ان کے بقول: بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں مسلح تنظیموں کو پہاڑی سلسلے کے باعث کافی سپورٹ ملتی ہے اور جس کی بنا پر وہ اپنی کارروائیوں میں بظاہر کامیاب نظر آتے ہیں۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے زہری واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کے لیے ایک شفاف اور غیر جانب دار تحقیقات کی ہدایت ہے۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا ہے کہ عوام کے تحفظ اور ریاستی رٹ کی بحالی اولین ترجیح ہے۔ مقامی انتظامیہ کی جانب سے زہری واقعہ پر فوری ردعمل نہ دینے پر محکمہ داخلہ نے نوٹس لے لیا ہے۔
ان کے بقول: زہری واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے تک روزانہ پیش رفت کا متواتر جائزہ لیا جائے گا، قانون نافذ کرنے والے ادارے صورتِ حال کی مکمل نگرانی کر رہے ہیں۔
فورم