وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اُن کی وزیراعظم سے بات ہوئی ہے اور ’’ہم کوشش کریں گے کہ اس مسئلے کو رات تک حل کر لیں اور صبح عدالت کو خوش خبری سنائیں۔‘‘
اسلام آباد —
پاکستان میں لاپتہ افراد سے متعلق ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کی یقین دہانی پر حکومت کو ان مشتبہ لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے ایک دن کی اور مہلت دے دی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ جمعہ تک وہ اس بارے میں عدالت کو ان کے بقول اچھی خبر سنائیں گے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے گا یا ان کے کوائف۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’وزیراعظم سے میری بات ہوئی ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ اس مسئلے کو رات تک حل کر لیں اور صبح عدالت کو خوش خبری سنائیں۔ یہ لوگ مختلف جگہوں پر ہیں اور بعض تو رہا ہوچکے ہیں اور اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اب انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ اعداد شمار کے مطابق مجموعی طور پر 35 مبینہ لاپتہ افراد میں سے دو کی تفتیشی مرکز میں موت واقع ہوگئی جبکہ تین کسی سیکورٹی ادارے کی تحویل میں نہیں۔
اُدھر پاکستان کی سپریم کورٹ نے فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل اعجاز شاہد کو بلوچستان میں بدامنی اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں عدالت کے سامنے پیشں نا ہونے پر توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔
اس مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ماہ ہونے والی سماعت میں میجر جنرل اعجاز کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا تھا لیکن ایف سی کے ترجمان نے یہ موقف اختیار کہ ایسا کرنے سے فوجیوں کا حوصلہ پست ہو گا۔
جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدالت میں پیش ہونے سے کسی کا حوصلہ پست نہیں ہو سکتا اور عدالت کو نیچا دکھانے کی روش برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ایف سی کے سربراہ کی طرف سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر بطور عدالت میں وکیل پیش ہوئے لیکن عدالت نے یہ کہہ کر ان کا وکالت نامہ مسترد کردیا کہ اس پر اُن کے موکل کے دستخط نہیں ہیں۔
بلوچستان میں بدامنی اور لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے عدالت حکومت کو یہ ہدایت کر چکی ہے کہ وہ ان افراد کو عدالت میں پیش کرے یا ان کی گمشدگی کے ذمہ داران کے نام بتائے۔
میجر جنرل اعجاز شاہد کو نو دسمبر کو عدالت میں پیش ہو کر وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف عدالت نوٹس جاری کیا گیا۔
سینئر قانون دان وسیم سجاد اس بارے میں کہتے ہیں۔ ’’میرے خیال میں ہمیں ان چیزوں کو علیحدہ دیکھنا چاہیے کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں یہ اپنی جگہ ہوتا ہے۔ مورال ہونا چاہیے۔ فورسز کے حوصلے کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ عدالت نے تو آئین دیکھنا ہوتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔‘‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ جمعہ تک وہ اس بارے میں عدالت کو ان کے بقول اچھی خبر سنائیں گے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے گا یا ان کے کوائف۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’وزیراعظم سے میری بات ہوئی ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ اس مسئلے کو رات تک حل کر لیں اور صبح عدالت کو خوش خبری سنائیں۔ یہ لوگ مختلف جگہوں پر ہیں اور بعض تو رہا ہوچکے ہیں اور اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اب انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ اعداد شمار کے مطابق مجموعی طور پر 35 مبینہ لاپتہ افراد میں سے دو کی تفتیشی مرکز میں موت واقع ہوگئی جبکہ تین کسی سیکورٹی ادارے کی تحویل میں نہیں۔
اُدھر پاکستان کی سپریم کورٹ نے فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل اعجاز شاہد کو بلوچستان میں بدامنی اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں عدالت کے سامنے پیشں نا ہونے پر توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔
اس مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ماہ ہونے والی سماعت میں میجر جنرل اعجاز کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا تھا لیکن ایف سی کے ترجمان نے یہ موقف اختیار کہ ایسا کرنے سے فوجیوں کا حوصلہ پست ہو گا۔
جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدالت میں پیش ہونے سے کسی کا حوصلہ پست نہیں ہو سکتا اور عدالت کو نیچا دکھانے کی روش برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ایف سی کے سربراہ کی طرف سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر بطور عدالت میں وکیل پیش ہوئے لیکن عدالت نے یہ کہہ کر ان کا وکالت نامہ مسترد کردیا کہ اس پر اُن کے موکل کے دستخط نہیں ہیں۔
بلوچستان میں بدامنی اور لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے عدالت حکومت کو یہ ہدایت کر چکی ہے کہ وہ ان افراد کو عدالت میں پیش کرے یا ان کی گمشدگی کے ذمہ داران کے نام بتائے۔
میجر جنرل اعجاز شاہد کو نو دسمبر کو عدالت میں پیش ہو کر وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف عدالت نوٹس جاری کیا گیا۔
سینئر قانون دان وسیم سجاد اس بارے میں کہتے ہیں۔ ’’میرے خیال میں ہمیں ان چیزوں کو علیحدہ دیکھنا چاہیے کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں یہ اپنی جگہ ہوتا ہے۔ مورال ہونا چاہیے۔ فورسز کے حوصلے کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ عدالت نے تو آئین دیکھنا ہوتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔‘‘