کسی بے گناہ کو زیر حراست نہ رکھا جائے: سپریم کورٹ

فائل فوٹو

ملک میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک عرصے سے مقامی و بین الاقوامی توجہ کا مرکز چلا آ رہا ہے لیکن اس بابت سرکاری کمیشن کی کارگزاریوں اور عدالت عظمیٰ کی کارروائیوں کے باوجود ان افراد کے لواحقین و اقربا مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔

پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے لاپتا افراد سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی بے گناہ ہے تو اسے حراست میں نہیں رکھا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے 26 اکتوبر کو لاپتا افراد کے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے حکام کو ہدایت کی تھی کہ حراستی مراکز میں موجود افراد کی تفصیلات کے بارے میں دو ہفتوں میں عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا جائے۔

لیکن پیر کو ہونے والی سماعت میں اس بابت تفصیل فراہم نہ کیے جانے پر دو رکنی بینچ نے برہمی کا اظہار کیا۔

بینچ میں شامل جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص نے جرم کیا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے لیکن اگر ان حراستی مراکز میں موجود شخص بے گناہ ہے تو اسے رہا کیا جانا چاہیے۔

بینچ نے ایک بار پھر حکام کو دو ہفتوں میں تفصیلات فراہم کرنے اور حراستی مراکز میں بند لوگوں سے ان کے رشتے داروں کی ملاقات کا بندوبست کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

ملک میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک عرصے سے مقامی و بین الاقوامی توجہ کا مرکز چلا آ رہا ہے لیکن اس بابت سرکاری کمیشن کی کارگزاریوں اور عدالت عظمیٰ کی کارروائیوں کے باوجود ان افراد کے لواحقین و اقربا مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔

درخواست گزاروں میں آمنہ مسعود جنجوعہ بھی شامل ہیں جن کے شوہر مسعود جنجوعہ 12 سال سے لاپتا ہیں اور وہ لاپتا افراد کی مدد کے لیے آواز بلند کرتی آ رہی ہیں۔

پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے پیش کیے جانے والے بعض لاپتا افراد اپنے ساتھ حراستی مراکز میں موجود دیگر افراد کے بارے میں بتا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

"اتنے واضح ثبوت ہونے کے باوجود کتنی عدالتیں ہیں کتنے کمیشن ہیں اور یہ لوگ اب بھی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور انھیں انصاف نہیں مل رہا۔ آج عدالت نے بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ جلد رپورٹ لائیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کو ان کے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت تو دی جاتی ہے لیکن یہ عمل بھی خاصا صبر آزما ہوتا ہے۔

"ان کے رشتے دار بڑی مشکلوں سے کمیشن کے رجسٹرار کے ذریعے ملاقات کر پاتے ہیں اور بعض لوگوں کو تو چھ چھ مہینے ہو گئے ہیں کہ ملاقات نہیں ہوئی ہے اور ملاقات جب ہوتی ہے تو بیچ میں دو جالیاں ہوتی ہیں دو دو فٹ کے فاصلے پر جس میں سے انھیں اپنے پیاروں کی شکل بھی صحیح سے نظر نہیں آتی اور اس میں صرف دس منٹ کا وقت دیا جاتا ہے۔"

حکومت نے لاپتا افراد سے متعلق ایک کمیشن بھی قائم کر رکھا ہے جس کے سربراہ جاوید اقبال نے حال ہی میں قانون سازوں کو بتایا تھا کہ 2011ء سے لے کر اب تک رپورٹ ہونے والے 4229 کیسز میں سے 2939 نمٹائے جا چکے ہیں۔

لاپتا افراد کے رشتے دار ان گمشدگیوں کا الزام اکثر حساس اداروں پر عائد کرتے ہیں جنہیں یہ ادارے مسترد کرتے ہیں۔

جاوید اقبال کا بھی کہنا تھا کہ انھوں نے اس سلسلے میں جب کبھی بھی انٹیلی جنس حکام سے جواب طلب کیا تو یہ عہدے دار ان کے سامنے پیش ہوتے رہے اور اگر ان الزامات کے ثبوت موجود نہ ہوں تو وہ کسی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔