پاکستان کی سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پرویز مشرف اگر بیان ریکارڈ کروانے کے لیے پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت دفاع کا حق ختم کر کے استغاثہ کو سن کر فیصلہ کر سکتی ہے۔
سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت نے پرویز مشروف کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے دو مئی تک کی مہلت دی ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی جس میں خصوصی عدالت کا 28 مارچ کا حکم نامہ پیش کیا گیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف نے پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے جس پر اُن کے وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف خود واپس آ کر بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف یقین دہانی کے باوجود واپس نہ آئے تو کیا ہو گا، کمٹمنٹ کر کے واپس نہ آنے پر کچھ تو ہونا ہی چاہیئے۔
سابق صدر مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں ذاتی ضمانت نہیں دے سکتا کہ پرویز مشرف واپس آئیں گے تاہم بطور وکیل مجھے ہدایات ہیں کہ وہ خود پیش ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے علاج کی غرض سے 13 مئی کو واپس آنے کی تاریخ دی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل غیر آئینی ہوتا ہے اور ملزم جان بوجھ کر پیش نہ ہو تو اس کو فائدہ نہیں اٹھانے دے سکتے اور سنگین غداری کوئی معمولی جرم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ پرویز مشرف کی واپسی تک ٹرائل آگے نہ بڑھانے کا حکم دے چکی ہے، پراسیکوشن نے بھی ٹرائل کورٹ کے 19 جولائی 2016ء کے حکم کو چیلنج نہیں کیا جب کہ سابق حکومت نے مشرف کو باہر جانے سے روکنے کے لیے کارروائی نہیں کی۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے سنگین غداری کیس میں ٹرائل آگے بڑھانے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر دوران ٹرائل مفرور ہوئے اور ان کے دفاع کا حق ختم ہو چکا ہے جبکہ پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ کی بنا پر کیس کی کارروائی نہیں رکے گی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف 2 مئی کو پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے اور پرویز مشرف کو سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت بھی نہیں ہو گی۔
سنگین غداری کا مقدمہ کیا ہے؟
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی فوجی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
مارچ 2014ء میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے، تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کر سکی۔
بعدازاں 2016ء میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ 8 مارچ 2018ء سے خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کیں، تاہم 29 مارچ کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔
خصوصی عدالت نے 2 مئی کو سابق صدر پرویز مشرف کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں ان کا عدالت کے سامنے آنا مشکل قرار دیا جا رہا ہے۔