مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے جنگ زدہ علاقوں کے پناہ گزینوں کےعلاوہ بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے بھی حال ہی میں یورپ کا رخ کیا ہے۔
جہاں یورپی حکام اپنی سر زمین پر پہنچنے والے پناہ گزینوں کی آباد کاری کے لیے مؤثر نظام وضع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، وہیں بہتر معاشی مستقبل کے لیے افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک سے یورپ آنے والے افراد کو وطن واپس بھیجنے کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔
تاہم پاکستان نے یورپی یونین سے بغیر وجہ بتائے نکالے گئے پاکستانی شہریوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ آئندہ کسی بھی ’ڈی پورٹی‘ یعنی ملک بدر کیے گئے شخص کو وزارتِ داخلہ کی اجازت اور پاکستانی سفری دستاویزات کے بغیر پاکستان لانے والی ائیر لائن کو بھاری جرمانہ کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے منگل کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں حکم دیا کہ آئندہ کسی بھی پاکستانی تارک وطن کو وزارتِ داخلہ کی واضح اجازت کے بغیر عارضی سفری دستایزات کا اجراء نہ کیا جائے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ڈی پورٹیز کے حوالے سے پاکستان اور یورپین یونین کے درمیان معاہدہ معطل ہونے کی وجہ اس میں موجود تضادات اور اس کے عملدرآمد میں پائی جانے والی بے قاعدگیاں تھیں۔
پاکستان کی وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر سے 90 ہزار پاکستانیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر وطن واپس بھیجا گیا مگر کچھ کیسوں میں اس بات کا واضح تعین نہیں کیا گیا کہ آیا پاکستان بھیجے جانے والے افراد پاکستانی تھے یا نہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ گزشتہ سال کتنے افراد یورپ سے پاکستان بھیجے گئے۔
منگل کو ہونے والے اجلاس میں وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی پاکستانی پر بغیر ثبوت کے دہشت گردی کا الزام لگا کر اُسے ملک بدر کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کو مراسلہ بھی جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی پاکستانی کو دہشت گردی کے الزام میں ملک بدر کرنا مقصود ہو تو اس کے خلاف ثبوت فراہم کیے جائیں۔
2009 میں پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو پاکستان واپس بھیجنے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جسے وزارت داخلہ نے رواں ماہ معطل کر دیا ہے۔
اجلاس میں وزیر داخلہ نے اندرون اور بیرون ملک انسانی سملگروں کے خلاف فوری کارروائی کا بھی حکم دیا ہے۔