پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے "پیمرا" نے ایک نجی ٹی وی چینل "اے آر وائی نیوز" کا لائسنس 15 روز کے لیے معطل کرتے ہوئے اس پر ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
رواں سال یہ دوسرا موقع ہے کہ پیمرا نے کسی نجی ٹی وی چینل کا لائسنس عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے اس کی نشریات کو منسوخ کیا۔
اس سے قبل جیو نیوز کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کی گئی تھی۔
پیمرا نے اے آر وائی نیوز کے خلاف یہ اقدام ایک عدالتی فیصلے کی روشنی میں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس چینل پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔
عدالتی فیصلے میں اس پروگرام کے میزبان مبشر لقمان پر کسی بھی چینل پر پروگرام پیش کرنے یا بطور مہمان شرکت کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔
عمومی تاثر یہی ہے کہ اس چینل پر پیش کیے جانے والے تجزیے اور مباحثوں پر مبنی دیگر پروگرام میں حکومت کو زیادہ ہدف تنقید بنایا جاتا ہے لیکن چینل کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ صرف حقائق پر مبنی مواد نشر کرتی ہے اور کسی بھی طرح فریق کا کردار ادا نہیں کرتی۔
رواں سال جیو نیوز پر ملک کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے متعلق بیانات اور بعدازاں مقدس شخصیات سے متعلق مبینہ طور پر غیر شائستہ مواد نشر کرنے کی وجہ سے ملک بھر میں اس چینل پر خاصی تنقید ہوئی اور اسے پیمرا کی طرف سے لائسنس کی عارضی معطلی اور جرمانے کی سزا کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
لیکن اس سارے معاملے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایک تقسیم نظر آئی جسے مبصرین غیرصحت مندانہ قرار دیتے آرہے تھے۔
سینیئر صحافی اور ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ذرائع ابلاغ پر کسی بھی طرح قدغن درست بات نہیں لیکن ان کے بقول جہاں میڈیا کو اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے وہیں ایک ایسے نگران ادارے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے جس کے فیصلوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے کوئی بھی اس پر جانبداری کا الزام عائد نہ کرسکے۔
"آزاد میڈیا ہے تواس کے ساتھ ایک ذمہ داری ہے اخلاقی قدریں ہیں پیشہ وارانہ قدریں ہیں ان پر عملدرآمد کے لیے ہم کہتے رہے کہ رضاکارانہ ادارہ ہو لیکن وہ بات تو نظر نہیں آرہی۔ میڈیا میں ہلا گلا ہے بہت بدتمیزی چل رہی ہے اور بہت غیر اخلاقی رجحانات مضبوط ہو رہے ہیں اس سب سے میڈیا کی ساکھ ختم ہورہی ہے تو ایسا ادارہ ہو لیکن وہ انتظامیہ کے تحت نہیں ہونا چاہیے اس میں قابل اعتماد لوگ ہوں ان کا انتخاب اتفاق رائے سے ہو نہ وہ کسی پارٹی یا حکومت کے نمائندے ہوں۔"
ادھر حقوق انسانی کی ایک موقر تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اے آر وائی نیوز کے خلاف ہونے والے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بظاہر سیاسی دباؤ کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے لہذا اس پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔