پرویز رشید نے کہا کہ حکومت خطے میں امن کے قیام کے لیے تمام کوششیں کر رہی ہے اور اُن کے بقول پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کے لیے امن ناگزیر ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر حکومت، حزب اختلاف کی جماعتوں اور فوج ’’سب کا موقف یکساں‘‘ ہے۔
پرویز رشید نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت خطے میں امن کے قیام کے لیے تمام کوششیں کر رہی ہے اور اُن کے بقول پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کے لیے امن ناگزیر ہے۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات پر اتفاق 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں کیا گیا لیکن حالات میں اتار چڑھاؤ کے باعث مذاکراتی عمل کے آغاز میں تاخیر ہوئی۔
’’کبھی ماحول بہتر ہو گیا، کبھی ماحول کسی وجہ سے ٹھیک نہ رہا۔ اب ان بہت سی چیزوں پر قابو پایا گیا ہے اور دوبارہ ایک ایسا ماحول بنتا چلا گیا ہے کہ اس عمل کو باضابطہ طور پر شروع کیا جا سکے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات کے اس بیان سے ایک روز قبل وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اُدھر حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دیگر اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
’’وزیراعظم نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، آج اُنھی اخبارات میں وزیر داخلہ کا بیان چھپا ہوا ہے کہ بہت جلد اسٹرایکچرڈ مذاکرات طالبان سے شروع ہوں گے۔‘‘
تاہم حکمران مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماء راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حزب اختلاف کے اس موقف کو رد کیا کہ اُنھیں طالبان سے مذاکرات کے بارے میں آگاہ نہیں رکھا جا رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جمعرات کو وزیر داخلہ چودھری نثار نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اس معاملے پر تفصیلی بریفنگ دی۔
’’وزیر داخلہ نے (پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اعتماد میں لیا) اور اُنھیں بریفنگ دی۔ وہ سب بہت مطمئن تھے اور مشاورت کا یہ عمل مسلسل جاری رہے گا۔‘‘
بعض مبصرین اور خود حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان میں بہت سے شدت پسند گروہ شامل ہیں اس لیے مذاکرات کا یہ عمل صبر آزما اور طویل ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ وہ دعا گو ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کا عمل آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہو۔ لیکن سرکاری طور پر تاحال یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ بات چیت کس سطح پر ہو رہی ہے اور اس میں کون سے گروہ شامل ہیں۔
پرویز رشید نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت خطے میں امن کے قیام کے لیے تمام کوششیں کر رہی ہے اور اُن کے بقول پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کے لیے امن ناگزیر ہے۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات پر اتفاق 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں کیا گیا لیکن حالات میں اتار چڑھاؤ کے باعث مذاکراتی عمل کے آغاز میں تاخیر ہوئی۔
’’کبھی ماحول بہتر ہو گیا، کبھی ماحول کسی وجہ سے ٹھیک نہ رہا۔ اب ان بہت سی چیزوں پر قابو پایا گیا ہے اور دوبارہ ایک ایسا ماحول بنتا چلا گیا ہے کہ اس عمل کو باضابطہ طور پر شروع کیا جا سکے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات کے اس بیان سے ایک روز قبل وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اُدھر حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دیگر اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
’’وزیراعظم نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، آج اُنھی اخبارات میں وزیر داخلہ کا بیان چھپا ہوا ہے کہ بہت جلد اسٹرایکچرڈ مذاکرات طالبان سے شروع ہوں گے۔‘‘
تاہم حکمران مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماء راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حزب اختلاف کے اس موقف کو رد کیا کہ اُنھیں طالبان سے مذاکرات کے بارے میں آگاہ نہیں رکھا جا رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جمعرات کو وزیر داخلہ چودھری نثار نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اس معاملے پر تفصیلی بریفنگ دی۔
’’وزیر داخلہ نے (پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اعتماد میں لیا) اور اُنھیں بریفنگ دی۔ وہ سب بہت مطمئن تھے اور مشاورت کا یہ عمل مسلسل جاری رہے گا۔‘‘
بعض مبصرین اور خود حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان میں بہت سے شدت پسند گروہ شامل ہیں اس لیے مذاکرات کا یہ عمل صبر آزما اور طویل ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ وہ دعا گو ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کا عمل آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہو۔ لیکن سرکاری طور پر تاحال یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ بات چیت کس سطح پر ہو رہی ہے اور اس میں کون سے گروہ شامل ہیں۔