رسائی کے لنکس

طالبان سے مذاکرات پر بیشتر جماعتیں رضامند


پاکستانی حکومت طالبان سے مذاکرات کرے۔ بیشتر سیاسی جماعتیں اس پر رضامند ہیں۔ لیکن، ایک دینی تنظیم کا موقف اس سے جدا ہے۔ اس کا کہنا ہے مذاکرات خلاف آئین ہیں

کراچی ۔۔۔ان دنوں’ طالبان کے ساتھ حکومت کے ممکنہ مذاکرات‘ پاکستانی سیاست کا اہم موضوع ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتیں مذاکرات کے حق میں ہیں۔ تاہم، مجلس وحدت المسلمین کا موٴقف ہے کہ مذاکرات خلاف آئین ہیں۔

’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہٴخیال میں مذاکرات کے حق میں بیان دینے والی جماعتوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات جتنا جلد ممکن ہوسکے شروع کردینے چاہئیں۔ اس سے دہشت گردی کی معمول بنتی کارروائیوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن، حکومت کے لئے پریشانی یہ ہے کہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے درمیان وہ مذاکرات کا جھنڈا کیوں کر بلند کرسکتی ہے؟

ادھر طالبان کا نظریہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان وارداتوں کے ذریعے حکومت پر دباوٴ برقرار رکھے تاکہ اسے اپنی شرائط منوانے میں آسانی ہو۔

دونوں فریقوں کے درمیان ممکنہ مذاکرات کے لئے بالواسطہ یا بلاواسطہ پیش رفت تو ہوئی ہے۔ لیکن، باضابطہ مذاکرات تاحال شروع نہیں ہوسکے ہیں۔ حالانکہ، صوبہ خیبر پختوانخواہ کی صوبائی حکومت بھی وفاق سے مذاکرات فوری شروع کرنے کا کہہ چکی ہے۔

ایک سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ، ’مذکورہ صورتحال میں حکومت کے لئے مذاکرات ’حلق کی ہڈی‘ بنے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک دہشت گردی کے خاتمے کا صرف ایک آپشن ہے ۔۔ اور وہ ہے مذاکرات۔ ان میں جتنی دیر ہوگی اتنا ہی نقصان ہوگا۔‘

حکومت کے لئے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ شدت پسندوں یا طالبان کا کوئی ایک دھڑا یا گروپ نہیں۔

ایک جانب پاکستانی طالبان ہیں تو دوسری طرف افغان طالبان۔

خود ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کئی دھڑوں میں منقسم ہے۔ حکومت ایک سے مذاکرات کا عندلیہ دیتی ہے تو دوسرا دھڑا ناراض ہوجانے کا تاثر دینے لگتا ہے۔ دوسرے کو مناوٴ تو تیسرا میدان میں اتر آتا ہے۔ ایسے میں کوئی کرے تو کیا کرے؟

مذاکرات کی مخالفت کرنے والی مجلس وحدت المسلمین کا کہنا ہے کہ چونکہ طالبان کے حملے بڑھ گئے ہیں۔ لہذا، ان سے مذاکرات بھی خلاف آئین ہیں۔

تنظیم کے مرکزی سیکرٹری جنرل، علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ ہم طالبان سے مذاکرات کے اعلان کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کیخلاف ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے۔
XS
SM
MD
LG