عرفان صدیقی نے کہا کہ رابطہ کاری یا آسانیاں پیدا کرنے کے مرحلے سے نکل کر ہم فیصلہ سازی کے مرحلے میں چلے گئے ہیں، جہاں اہم فیصلے ہونے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں حکومت اور طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹیوں کا ایک اجلاس بدھ کو ہوا جس میں کہا گیا کہ بات چیت کا عمل فیصلہ سازی کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی نے پشاور کے قریب اکوڑہ خٹک میں طالبان کی نامزد کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ پر مذاکراتی اجلاس میں شرکت کی۔
حکومت کی چار رکنی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے مذاکرات کے اختتام پر نیوز کانفرنس میں بتایا کہ بات چیت کا پہلا مرحلہ ختم ہو چکا ہے۔
’’ہم رابطہ کاری یا آسانیاں پیدا کرنے کے مرحلے سے نکل کر، فیصلہ سازی کے مرحلے میں چلے گئے ہیں، جہاں اہم فیصلے ہونے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کی کمیٹی نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے اُنھیں یہ تجویز پیش کی تھی کہ مذاکرات کو زیادہ موثر و نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
طالبان کی نامزد کردہ مذاکرات کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان نے نظام یا آئین کی تبدیلی کی کوئی شرط نہیں رکھی اور وہ پر اُمید ہیں کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا۔
مولانا سمیع الحق نے اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ اجلاس میں طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان اور بعد کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
’’دونوں کمیٹیوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ طالبان کی طرف سے فائر بندی اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے جوابی کارروائیاں بند ہونے جانے سے مذاکراتی عمل ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘
مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی نے اُنھیں آگاہ کیا کہ مذاکرات کو موثر بنانے کے لیے ایسا لائحہ عمل وضع کیا جائے جس کے تحت محدود وقت میں بہتر نتائج کا حصول ممکن ہو۔
’’طالبان کمیٹی نے اس عمل سے اتفاق کیا کہ پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے کو بھی مکمل امن کی منزل تک لے جانے کے لیے زیادہ موثر اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ طالبان کمیٹی نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے کہا ہے تاکہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے اور نئی حکمت عملی کے بارےمیں تبادلہ خیال کیا جا سکے۔‘‘
عرفان صدیقی نے بتایا کہ طالبان کمیٹی کو بھی یہ بتایا گیا ہے کہ مذاکرات کے آئندہ دور میں فیصلہ سازی کی جانب بڑھنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
’’کیا یہ ہی دو کمیٹیاں کام کرتی رہیں گی، کیا کوئی اور کمیٹی قائم کر دی جائے گی اُس کے اجزاء ترکیبی کیا ہوں گے۔ یہ ہی چیزیں جن کو ہم حکمت عملی، مشاورت اور لائحہ عمل کا نام دے رہیں ان ہی چیزوں کو ہم نے اگلے ایک دو دنوں میں ہم نے طے کرنا ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ فرنٹیئر کور کے 23 مغوی اہلکاروں کو طالبان کے ایک گروپ نے قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس کے بعد حکومت کی کمیٹی نے یہ کہہ کر مذاکرات کا عمل معطل کر دیا تھا کہ دہشت گرد حملوں کے ہوتے ہوئے بات چیت جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
مذاکراتی عمل میں تعطل کے بعد سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں اور گن شب ہیلی کاپٹروں کی مدد سے وزیرستان، خیبر ایجنسی اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ہنگو کے علاقے میں فضائی کارروائیاں کیں جن میں 90 سے زائد مشتبہ جنگجو مارے گئے۔
اس دوران شدت پسندوں کی جانب سے حملے جاری رہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے طالبان کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا جس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف محدود فضائی کارروائیاں معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
رواں ہفتے ہی پیر کو اسلام آباد کچہری پر خودکش حملے اور فائرنگ سے ایک جج سمیت 11 افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اگرچہ طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم احرار الہند نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کا حصہ رہ چکی ہے لیکن اب ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔
حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی نے پشاور کے قریب اکوڑہ خٹک میں طالبان کی نامزد کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ پر مذاکراتی اجلاس میں شرکت کی۔
حکومت کی چار رکنی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے مذاکرات کے اختتام پر نیوز کانفرنس میں بتایا کہ بات چیت کا پہلا مرحلہ ختم ہو چکا ہے۔
’’ہم رابطہ کاری یا آسانیاں پیدا کرنے کے مرحلے سے نکل کر، فیصلہ سازی کے مرحلے میں چلے گئے ہیں، جہاں اہم فیصلے ہونے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کی کمیٹی نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے اُنھیں یہ تجویز پیش کی تھی کہ مذاکرات کو زیادہ موثر و نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
طالبان کی نامزد کردہ مذاکرات کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان نے نظام یا آئین کی تبدیلی کی کوئی شرط نہیں رکھی اور وہ پر اُمید ہیں کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا۔
مولانا سمیع الحق نے اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ اجلاس میں طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان اور بعد کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
’’دونوں کمیٹیوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ طالبان کی طرف سے فائر بندی اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے جوابی کارروائیاں بند ہونے جانے سے مذاکراتی عمل ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘
مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی نے اُنھیں آگاہ کیا کہ مذاکرات کو موثر بنانے کے لیے ایسا لائحہ عمل وضع کیا جائے جس کے تحت محدود وقت میں بہتر نتائج کا حصول ممکن ہو۔
’’طالبان کمیٹی نے اس عمل سے اتفاق کیا کہ پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے کو بھی مکمل امن کی منزل تک لے جانے کے لیے زیادہ موثر اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ طالبان کمیٹی نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے کہا ہے تاکہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے اور نئی حکمت عملی کے بارےمیں تبادلہ خیال کیا جا سکے۔‘‘
عرفان صدیقی نے بتایا کہ طالبان کمیٹی کو بھی یہ بتایا گیا ہے کہ مذاکرات کے آئندہ دور میں فیصلہ سازی کی جانب بڑھنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
’’کیا یہ ہی دو کمیٹیاں کام کرتی رہیں گی، کیا کوئی اور کمیٹی قائم کر دی جائے گی اُس کے اجزاء ترکیبی کیا ہوں گے۔ یہ ہی چیزیں جن کو ہم حکمت عملی، مشاورت اور لائحہ عمل کا نام دے رہیں ان ہی چیزوں کو ہم نے اگلے ایک دو دنوں میں ہم نے طے کرنا ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ فرنٹیئر کور کے 23 مغوی اہلکاروں کو طالبان کے ایک گروپ نے قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس کے بعد حکومت کی کمیٹی نے یہ کہہ کر مذاکرات کا عمل معطل کر دیا تھا کہ دہشت گرد حملوں کے ہوتے ہوئے بات چیت جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
مذاکراتی عمل میں تعطل کے بعد سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں اور گن شب ہیلی کاپٹروں کی مدد سے وزیرستان، خیبر ایجنسی اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ہنگو کے علاقے میں فضائی کارروائیاں کیں جن میں 90 سے زائد مشتبہ جنگجو مارے گئے۔
اس دوران شدت پسندوں کی جانب سے حملے جاری رہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے طالبان کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا جس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف محدود فضائی کارروائیاں معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
رواں ہفتے ہی پیر کو اسلام آباد کچہری پر خودکش حملے اور فائرنگ سے ایک جج سمیت 11 افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اگرچہ طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم احرار الہند نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کا حصہ رہ چکی ہے لیکن اب ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔