اسلام آباد —
پاکستان کی حکومت نے طالبان کی طرف سے فائر بندی کے اعلان کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ چند روز سے شدت پسندوں کے خلاف جاری فضائی کارروائی کو معطل کیا جارہا ہے۔
اتوار کو ایک سرکاری بیان میں وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نہ تو کوئی باقاعدہ فوجی آپریشن کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی بلا جواز کارروائی کی گئی۔
ان کے بقول حکومت طالبان کی طرف سے تشدد کی کارروائیاں روکنے کے اعلان کو ایک مثبت پیش رفت سمجھتی ہے اور اسی لیے فضائی کارروائیوں کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم بیان کے مطابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی پرتشدد کارروائی کے خلاف بہرحال حکومت اور پاکستانی افواج مناسب کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
حکومت کے اس اعلان سے ایک روز قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے یکطرفہ فائربندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے تمام ذیلی گروہوں کو بھی اس کی پاسداری کرنے کا کہا ہے۔
گزشتہ ماہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کوششیں اس وقت تعطل کا شکار ہوگئی تھیں جب ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کا نشانہ بنایا گیا اور مہمند ایجنسی کے ایک طالبان کمانڈر نے 23 مغوی ایف سی اہلکاروں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
مذاکراتی عمل میں تعطل کے بعد سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور ہنگو کے علاقوں میں جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور لگ بھگ 90 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔
طالبان کی طرف سے فائر بندی کے اعلان کو ملک میں سیاسی حلقے اور مبصرین امن کے قیام کی کوششوں کے لیے ایک حوصلہ افزا اقدام قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس سے دونوں فریقوں میں اعتماد کی فضا قائم ہوگی جو مذاکراتی عمل کے لیے اشد ضروری ہے۔
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گرد و انتہا پسندی کا سامنا ہے اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے اب تک تقریباً 40 ہزار شہری دہشت گردی کی لہر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
نواز شریف کی حکومت نے گزشتہ سال ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد متفقہ طور پر شدت پسندوں سے بات چیت کے ذریعے قیام امن کی کوششیں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ عمل رواں سال کے اوائل میں شروع ہوا تاہم طرفین کی چند ہی ملاقاتوں کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔
اتوار کو ایک سرکاری بیان میں وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نہ تو کوئی باقاعدہ فوجی آپریشن کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی بلا جواز کارروائی کی گئی۔
ان کے بقول حکومت طالبان کی طرف سے تشدد کی کارروائیاں روکنے کے اعلان کو ایک مثبت پیش رفت سمجھتی ہے اور اسی لیے فضائی کارروائیوں کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم بیان کے مطابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی پرتشدد کارروائی کے خلاف بہرحال حکومت اور پاکستانی افواج مناسب کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
حکومت کے اس اعلان سے ایک روز قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے یکطرفہ فائربندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے تمام ذیلی گروہوں کو بھی اس کی پاسداری کرنے کا کہا ہے۔
گزشتہ ماہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کوششیں اس وقت تعطل کا شکار ہوگئی تھیں جب ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کا نشانہ بنایا گیا اور مہمند ایجنسی کے ایک طالبان کمانڈر نے 23 مغوی ایف سی اہلکاروں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
مذاکراتی عمل میں تعطل کے بعد سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور ہنگو کے علاقوں میں جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور لگ بھگ 90 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔
طالبان کی طرف سے فائر بندی کے اعلان کو ملک میں سیاسی حلقے اور مبصرین امن کے قیام کی کوششوں کے لیے ایک حوصلہ افزا اقدام قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس سے دونوں فریقوں میں اعتماد کی فضا قائم ہوگی جو مذاکراتی عمل کے لیے اشد ضروری ہے۔
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گرد و انتہا پسندی کا سامنا ہے اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے اب تک تقریباً 40 ہزار شہری دہشت گردی کی لہر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
نواز شریف کی حکومت نے گزشتہ سال ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد متفقہ طور پر شدت پسندوں سے بات چیت کے ذریعے قیام امن کی کوششیں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ عمل رواں سال کے اوائل میں شروع ہوا تاہم طرفین کی چند ہی ملاقاتوں کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔