عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ شورش پسندی کا خاتمہ بات چیت سے ہی ممکن ہے مگر اس کے لیے عسکریت پسندوں کو ریاست کے اختیار کو تسلیم کرنا ہوگا۔
اسلام آباد —
حکومت کی اتحادی اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ میں بر سر اقتدار جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنماء افراسیاب خٹک نے کہا ہے کہ طالبان سے بات چیت تب ہی ممکن ہیں جب شدت پسند ملک کے آئین اور جمہوری نظام کو قبول کریں اور ان کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت اپنے ایجنڈے کے حصول کے لیے کوششیں کریں۔
وائس آف امریکہ سے ہفتہ کو گفتگو میں افراسیاب خٹک نے کہا کہ ان کی جماعت عدم تشدد کی پالیسی پر کاربند ہے اور ملکی آئین کے تحت ہر طرح کے مذاکرات انہیں قابل قبول ہیں۔
’’ہم ہتھیار پھینکنے یا نہ پھینکنے کی بحث میں نہیں پڑتے۔ تشدد ترک کرنا اہم بات ہے۔ جمہوری نظام تو بنیادی بات ہے۔ یہاں مذہبی جماعتیں ہیں جو جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اپنے نظریات پر کام کرتی ہیں۔ اگر کوئی گروہ ایسا نہیں کرتا تو اس سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ شورش پسندی کا خاتمہ بات چیت سے ہی ممکن ہے مگر اس کے لیے عسکریت پسندوں کو ریاست کے اختیار کو تسلیم کرنا ہوگا۔
کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے حکومت کو بات چیت کی پیش کش کو بعض تجزیہ کار زیادہ قابل اعتماد نہیں گردان رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیش کش کی وجہ افغانستان میں شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان حال ہی میں شروع ہونے والا مذاکراتی عمل بھی ہوسکتی ہے مگر ان کے بقول پاکستانی طالبان کی مذاکرات کے لیے شرائط قابل عمل نہیں۔
تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے جمعہ کو ان کی تنظیم کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ وہ موجودہ پاکستانی آئین اور جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔
پاکستانی اور امریکی حکومتوں کو مطلوب طالبان رہنماء نے اسلحہ پھینکنے کی شرط کو خارج از امکان قرار دیا۔
طالبان کی حکومت کو مذاکرات کی پیش کش ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے سینیئر صوبائی وزیر اور پارٹی کے رہنماء بشیر بلور کی خود کش حملے میں ہلاکت کے بعد حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ شدت پسندی کے خلاف سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام جماعتوں سے ملاقاتیں کریں گے۔
تجزیہ نگار شہزاد چوہدری کہتے ہیں کہ ملک کی سیاسی جماعتوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی سے متعلق اتفاق رائے نہ ہونا، بشیر احمد بلور کی ہلاکت کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی پر دباؤ اور سیاسی جماعتوں کی آئندہ انتخابات کی تیاریوں پر زیادہ توجہ کے باعث طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
’’اس سے پاکستانی ریاست کو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ انہوں نے بات چیت کرنی ہے یا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔‘‘
بعض ماہرین و مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی پیش کش شدت پسندوں کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے وقت کے حصول کا حربہ بھی ہوسکتا ہے۔
حکیم اللہ محسود نے اس ویڈیو پیغام میں اپنے نائب ولی الرحمان کے ہمراہ بیٹھے ہوئے ان خبروں کی تردید کی کہ شدت پسند تنظیم کی قیادت میں کوئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے ہفتہ کو گفتگو میں افراسیاب خٹک نے کہا کہ ان کی جماعت عدم تشدد کی پالیسی پر کاربند ہے اور ملکی آئین کے تحت ہر طرح کے مذاکرات انہیں قابل قبول ہیں۔
’’ہم ہتھیار پھینکنے یا نہ پھینکنے کی بحث میں نہیں پڑتے۔ تشدد ترک کرنا اہم بات ہے۔ جمہوری نظام تو بنیادی بات ہے۔ یہاں مذہبی جماعتیں ہیں جو جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اپنے نظریات پر کام کرتی ہیں۔ اگر کوئی گروہ ایسا نہیں کرتا تو اس سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ شورش پسندی کا خاتمہ بات چیت سے ہی ممکن ہے مگر اس کے لیے عسکریت پسندوں کو ریاست کے اختیار کو تسلیم کرنا ہوگا۔
کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے حکومت کو بات چیت کی پیش کش کو بعض تجزیہ کار زیادہ قابل اعتماد نہیں گردان رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیش کش کی وجہ افغانستان میں شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان حال ہی میں شروع ہونے والا مذاکراتی عمل بھی ہوسکتی ہے مگر ان کے بقول پاکستانی طالبان کی مذاکرات کے لیے شرائط قابل عمل نہیں۔
تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے جمعہ کو ان کی تنظیم کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ وہ موجودہ پاکستانی آئین اور جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔
پاکستانی اور امریکی حکومتوں کو مطلوب طالبان رہنماء نے اسلحہ پھینکنے کی شرط کو خارج از امکان قرار دیا۔
طالبان کی حکومت کو مذاکرات کی پیش کش ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے سینیئر صوبائی وزیر اور پارٹی کے رہنماء بشیر بلور کی خود کش حملے میں ہلاکت کے بعد حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ شدت پسندی کے خلاف سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام جماعتوں سے ملاقاتیں کریں گے۔
تجزیہ نگار شہزاد چوہدری کہتے ہیں کہ ملک کی سیاسی جماعتوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی سے متعلق اتفاق رائے نہ ہونا، بشیر احمد بلور کی ہلاکت کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی پر دباؤ اور سیاسی جماعتوں کی آئندہ انتخابات کی تیاریوں پر زیادہ توجہ کے باعث طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
’’اس سے پاکستانی ریاست کو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ انہوں نے بات چیت کرنی ہے یا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔‘‘
بعض ماہرین و مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی پیش کش شدت پسندوں کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے وقت کے حصول کا حربہ بھی ہوسکتا ہے۔
حکیم اللہ محسود نے اس ویڈیو پیغام میں اپنے نائب ولی الرحمان کے ہمراہ بیٹھے ہوئے ان خبروں کی تردید کی کہ شدت پسند تنظیم کی قیادت میں کوئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔