حکومت نے اصلاحاتی جنرل سیلز ٹیکس اور فلڈریلیف سرچارج کے نفاذ سے متعلق بلوں کو جمعہ کے روز پارلیمان میں پیش کیا جہاں نہ صرف حزب اختلاف بلکہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کی جانب سے بھی ان کی مخالفت کی گئی ۔
وفاقی کابینہ نے رواں ہفتے اصلاحاتی جی ایس ٹی اور فلڈریلیف سرچارج نافذ کرنے کی منظوری دی تھی ۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے ان دونوں بلوں کو عوام دشمن پالیسی قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انھیں واپس لیا جائے۔
لیکن ایوان کے اجلاس میں موجود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے حکومت کے اقدام پر اپوزیشن کی تنقید کو مسترد کیا۔
حکومت کا کہناہے کہ اصلاحاتی جنرل سیلزٹیکس کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں مختلف اشیا ء اور سروسز سیکٹر میں ٹیکس کی شرح 17 سے25 فیصد تک ہے جسے ختم کر کے 15فیصد یکساں ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ایسے شعبے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے اُنھیں اب ٹیکس نظام کے دائر کار میں لایا جائے گا۔
سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے صاحب حیثیت افراد پر فلڈ ریلیف سرچارج لگانے کا بل بھی پارلیمان سے منظوری کے لیے پیش کیا گیا جس کے تحت تین لاکھ روپے سے زائد سالانہ آمدن والے افراد پر انکم ٹیکس کے دس فیصد حصہ کے برابر اضافی ٹیکس لگایا جائے گا ۔ اضافی ٹیکس کا اطلاق یکم جنوری سے ہوگا اور یہ چھ ماہ کے لیے نافذ العمل ہوگا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اصلاحاتی جی ایس ٹی اور ایک دفعہ کے لیے فلڈ ریلیف سرچارج کے نفاذ سے 40 ارب روپے تک کی اضافی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو سکے گی۔ وزرات خزانہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ 16لاکھ خاندانوں کو فی خاندان ایک لاکھ روپے ادائیگی کے لیے حکومت کو 160 ارب روپے درکار ہیں جس کے لیے اندرونی طور پر وسائل اکٹھے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکہ اور پاکستان کو امداد دینے والے دوسرے ممالک کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے درکار اربوں ڈالر کی خطیر رقم کی فراہمی صرف بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری نہیں بلکہ پاکستان کو اندرونی وسائل سے یہ رقم جمع کرنی ہوگی اور اس کے لیے لازم ہے کہ صاحب حیثیت پاکستانیوں کو ٹیکس اداکرنے کے ساتھ ساتھ حکومت محصولات کے نظام میں اصلاحات کو یقینی بنائے ۔