پاکستان میں محکمہ صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تپ دق یعنی ٹی بی پر قابو پانے کے لیے کئی برسوں سے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں تاہم اب بھی ہر سال تقریباً چار لاکھ 20 ہزار افراد اس بیماری کا شکار ہورہے ہیں اور ان میں سے لگ بھگ 70 ہزار زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ہفتہ کو ٹی بی کے عالمی دن کے موقع پر قومی ٹی بی کنٹرول پروگرام کے مینیجر ڈاکٹر اعجاز قدیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک بھر میں ان کے ادارے کے پانچ ہزار مراکز اور 1500 لیبارٹریاں موجود ہیں جہاں لوگوں کو ٹی بی کی علامات سے آگاہی کے علاوہ اس کی تشخیص اور علاج مہیا کیا جارہا۔ ان کے بقول اسی بدولت وہ ہرسال تقریباً تین لاکھ لوگوں میں اس مرض کی تشخیص کرکے ان کا علاج کرنے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان مریضوں میں 13 ہزار ایسے بھی ہیں جن میں ٹی بی کا مرض انتہائی شکل اختیار کرچکا ہوتا ہے اور ان کے علاج پر تقریباً 10 سے 15 ہزار ڈالر خرچ آتا ہے۔ ان کے بقول ان مریضوں کے علاج کے لیے ملک بھر میں 30 ہسپتالوں میں ان کے ادارے نے مفت علاج کا بندوبست کررکھا ہے۔
ٹی بی کی وجوہات کے بارے میں ڈاکٹر اعجاز کہتے ’’ٹی بی غربت کی بیماری ہے، ناقص رہائش، نامناسب خوراک اور صحت کی ناقص صورتحال جیسے عوامل کے علاوہ ذہنی دباؤ اور پریشانیاں اس بیماری کا سبب بنتے ہیں، اس کے علاوہ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو ٹی بی سے متاثرہ ایک شخص سال میں کم ازکم دس مزید لوگوں کو اس بیماری میں مبتلا کرسکتا ہے۔‘‘
ان کے بقول اس بیماری سے سب سے زیادہ خطرہ بچوں کو ہوتا ہے لیکن ان کے اعدادوشمار میں یہ چیز سامنے آئی ہے کہ تقریباً 75 فیصد مریض 15 سے 45 سال کی عمر کے درمیان ہوتے ہیں۔
ٹی بی علامات اور اس کے علاج سے متعلق ڈاکٹر اعجاز کا کہنا تھا’’ تین ہفتوں سے زیادہ عرصے تک کھانسی اور اس کے ساتھ بلغم آتی رہے، ہروقت ہلکا بخار محسوس ہوتا رہے تو فوراً بلغم کا ٹیسٹ کرائیں اور ٹی بی کی تشخیص کے بعد اس کا مکمل علاج کرائیں جو کہ سرکاری طور پر پورے ملک میں مفت کیا جاتا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ مریض کو چاہیے کہ وہ دیگر افراد خصوصاً بچوں کے سامنے کھانستے ہوئے منہ پر رومال وغیرہ رکھے اور خارج ہونے والی بلغم کو ہر جگہ تھوکنے سے گریز کرے۔
عالمی ادارہ صحت کے 2010ء کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ٹی بی کے 90 لاکھ کیسز سامنے آئے جن کی اکثریت کا تعلق ترقی پذیر ملکوں سے تھا اور ان میں سے 14 لاکھ مریض موت کے منہ میں چلے گئے۔