نواز شریف نے کہا کہ دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اُن کی حکومت ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے عزم پر قائم ہے۔
اُنھوں نے اتوار کو راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں امن کے قیام کے لیے اُن کی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے اتوار کی صبح بھی ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔
’’ہر آنے والے دن میں آپ پاکستان میں مثبت تبدیلیاں دیکھیں گے…دعا کریں ہم دہشت گردی کی اس لہر کو ختم کر دیں۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف کے اس بیان سے محض ایک روز قبل ہی حکومت کی تشکیل کردہ نئی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کی نامزد شخصیات کے درمیان اسلام آباد میں پہلی رسمی ملاقات بھی ہوئی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار کی قیادت میں ہونے والے اس اجلاس میں حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین پر اتفاق کیا گیا۔
تاہم بات چیت کے لیے طے پانے والے مقام کا نام خفیہ رکھا گیا ہے۔
طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ جس مقام پر بات چیت ہو گی وہ ’’مذاکرات کے لیے پیس‘‘ زون ہو گا۔
اُدھر کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ قبائلی علاقوں میں اُن کے کارکنوں کے ٹھکانوں پر سکیورٹی فورسز کے حملوں میں تیزی آئی ہے جب کہ ترجمان کے مطابق جیلوں میں طالبان قیدیوں پر سختی کی جا رہی ہے۔
حکام طالبان کے ایسے دعوؤں کی تردید کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے رواں سال کے آغاز میں طالبان سے مذاکرات کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بات چیت کا عمل دہشت گرد حملوں کے باعث تعطل کا شکار بھی رہا۔
لیکن تحریک طالبان نے مارچ کے اوائل میں ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مذاکرات کا عمل دوبارہ بحال ہوا۔
وفاقی وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا حل چاہتی ہے لیکن اُن کے بقول وہ عناصر جو اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اُنھوں نے اتوار کو راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں امن کے قیام کے لیے اُن کی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے اتوار کی صبح بھی ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔
’’ہر آنے والے دن میں آپ پاکستان میں مثبت تبدیلیاں دیکھیں گے…دعا کریں ہم دہشت گردی کی اس لہر کو ختم کر دیں۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف کے اس بیان سے محض ایک روز قبل ہی حکومت کی تشکیل کردہ نئی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کی نامزد شخصیات کے درمیان اسلام آباد میں پہلی رسمی ملاقات بھی ہوئی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار کی قیادت میں ہونے والے اس اجلاس میں حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین پر اتفاق کیا گیا۔
تاہم بات چیت کے لیے طے پانے والے مقام کا نام خفیہ رکھا گیا ہے۔
طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ جس مقام پر بات چیت ہو گی وہ ’’مذاکرات کے لیے پیس‘‘ زون ہو گا۔
اُدھر کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ قبائلی علاقوں میں اُن کے کارکنوں کے ٹھکانوں پر سکیورٹی فورسز کے حملوں میں تیزی آئی ہے جب کہ ترجمان کے مطابق جیلوں میں طالبان قیدیوں پر سختی کی جا رہی ہے۔
حکام طالبان کے ایسے دعوؤں کی تردید کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے رواں سال کے آغاز میں طالبان سے مذاکرات کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بات چیت کا عمل دہشت گرد حملوں کے باعث تعطل کا شکار بھی رہا۔
لیکن تحریک طالبان نے مارچ کے اوائل میں ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مذاکرات کا عمل دوبارہ بحال ہوا۔
وفاقی وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا حل چاہتی ہے لیکن اُن کے بقول وہ عناصر جو اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔