پاکستان نے جمعے کے روز کہا ہے کہ افغانستان میں موجود ’’دہشت گردوں‘‘ نے سکیورٹی افواج کی چوکیوں پر کئی بار ’’مادی طور پر یا فائر کھول کر‘‘ چھاپے مارے، جن کے نتیجے میں تین فوجی ہلاک ہوئے۔
حملہ شمالی وزیرستان کے سرحدی ضلعے میں ہوا، جس کے بعد حملہ آوروں اور پاکستان کی سلامتی افواج کے درمیان گولیوں کا شدید تبادلہ ہوا۔
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جوابی کارروائی میں پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے، جب کہ چوکیوں پر قبضے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا۔
افغانستان کے ساتھ سرحد آرپار آنا جانا مشکل معاملہ نہیں رہا۔ پاکستان نےتقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر پائیدار باڑ لگانے کا کام جاری رکھا ہے، تاکہ غیر قانونی آمد و رفت اور دونوں جانب سے دہشت گرد دراندازی کو روکا جاسکے۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ گذشہ برس سے اب تک باڑ کے منصوبے پر کام کرنے والوں پر افغان سرحد سے بارہا حملے ہوئے ہیں، جن سے اب تک سات فوجی ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے مفرور عناصر نے افغان سرحدی علاقوں میں ’’لاقانونیت‘‘ کا بازار گرم کر رکھا ہے، جہاں سے سرحد کے آر پار تشدد کی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔
امریکی فوجی اہلکاروں کے مطابق، سابق تحریک طالبان پاکستان کے اکثر ارکان نے افغانستان میں داعش کے حلقوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
جمعے کے روز ہونے والے اِس سرحد پار دہشت گرد چھاپے سے قبل، امریکی حکام نے آج ہی اس بات کا انکشاف کیا کہ 13 جون کو کیے گئے ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ، ملا فضل اللہ ہلاک ہوگیا ہے، جس کے بعد پاکستانی اور امریکی مفادات کے خلاف ہونے والے مہلک حملوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔