2022 میں دہشت گردی سے ہلاکتوں میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر رہا

پاکستانی رینجرز دہشت گردوں کے تعاقب میں (فائل فوٹو)

منگل کو جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے 2022 میں دنیا بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ کیا، جن کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ کر 643 ہو گئی، جو گزشتہ سال ہونے والی 292 اموات سے 120 فیصد زیادہ ہے۔

آسٹریلیا میں قائم انسٹی ٹیوٹ فاراکنامکس اینڈ پیس (IEP)کی طرف سے جاری کردہ سالانہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس (GTI) کے مطابق اس سال پاکستان نے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ دہشت گرد حملوں اور اموات کے ساتھ افغانستان کو پیچھے چھوڑ دیا، جو کہ 2017 کے بعد سے اس پوزیشن پر برقرار تھا۔

دہشت گردی کے سبب برکینا فاسو میں عالمی سطح پرسب سے زیادہ اموات ہوئیں، جو 2022 میں 759 سے بڑھ کر 1135 ہو گئیں۔

GTI نے کہا کہ 2022 میں حملوں میں 75 فیصد کمی اوراموات میں 58 فیصد کمی کے باوجود افغانستان مسلسل چوتھے سال دہشت گردی سے ’’سب سے زیادہ متاثرہ ‘‘ ملک رہا۔ GTI کے مطابق، 2022 میں افغانستان میں 633 اموات ریکارڈ کی گئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 میں دنیا بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی تمام اموات میں سے تقریباً 9 فیصد افغانستان میں ہوئیں، جو کہ گزشتہ سال ریکارڈ کی گئی تعداد سے 20 فیصد سے کم ہے۔

طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد اسلامک اسٹیٹ-خراسان افغانستان میں ’’سب سے زیادہ فعال دہشت گرد گروپ‘‘ کے طور پر ابھرا ہے، جس نے 2022 میں 422 افراد کو ہلاک کیا جو اس سال دہشت گردی سے ہونے والی کل اموات کا تقریباً 67 فیصد حصہ بنتا ہے۔

فائل فوٹو

پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ دہائی میں سب سے زیادہ سال بہ سال اضافے کی نمائندگی کرتی ہے۔ دہشت گردی سے متعلقہ تمام متاثرین میں سے 55 فیصد فوجی اہل کار تھے۔ GTI کے مطابق، ہلاکتوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے یہ جنوبی ایشیائی ملک انڈیکس میں چھٹے نمبر پر آ گیا۔

بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق 36 فیصد یا ایک تہائی ہلاکتوں کے لیے ذمہ دار تھی، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں نو گنا زیادہ ہے۔

بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ وہ صوبہ بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے، جو کہ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے متصل ہے، اور پاکستانی حکومت کی جانب سے صوبے کے قدرتی وسائل پر جبر اور اس کی نسلی بلوچ آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام عائد کرتی ہے۔ اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

پاکستان، امریکہ اور برطانیہ نے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی دونوں کو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا ہے۔

ٹی ٹی پی اور اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گرد گروپ کے علاقائی الحاق، اسلامک اسٹیٹ-خراسان کی طرف سے دہشت گردی کی تیز رفتار کارروائیاں ملک بھر میں ہونے والی اموات میں اضافہ کا باعث بنی ہیں۔

ٹی ٹی پی پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گرد حملے کر رہی ہے تاکہ ایک ایسی اسلامی ریاست قائم کی جا سکے جیسا کہ بنیاد پرست طالبان افغانستان میں قائم کر چکے ہیں۔

پاکستانی طالبان، افغان طالبان کی ایک شاخ اور قریبی اتحادی ہیں۔ اس کے رہنما اور کمانڈر افغانستان میں مقیم ہیں اور مبینہ طور پر وہاں سے سرحد پار دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

طالبان رہنماؤں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی اور دیگر بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کو لگام نہیں ڈال رہے ہیں جب کہ طالبان ان الزامات کومسترد کرتے ہیں۔

(وی او اے نیوز)