بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے بزرگ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کو پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا نے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز 'نشانِ پاکستان' دینے کی سفارش کی ہے۔
بھارت نے سرکاری طور پر تاحال پاکستان کے اس فیصلے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ البتہ بھارت میں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض رہنما اسے علیحدگی پسند رہنماؤں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی اس فیصلے پر لوگ اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر متحرک بزرگ رہنما نے حال ہی میں کشمیر کی علیحدگی پسند جماعتوں کے اتحاد 'آل پارٹیز حریت کانفرنس' سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ لیکن اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ تاحیات کشمیر کی بھارت سے آزادی کے لیے سرگرم رہیں گے۔
پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ میں رواں ہفتے متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرارداد میں 91 سالہ بزرگ کشمیری رہنما کی "جدوجہدِ آزادی کی خدمات کے اعتراف میں" اُنہیں 'نشانِ پاکستان' دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
قرارداد میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستان میں وفاق اور صوبائی سطح پر تعلیمی نصاب میں سید علی گیلانی کی جدوجہد سے متعلق مضامین کو شامل کیا جائے تاکہ "نوجوان نسل کو ان کی عظمت کا اندازہ ہو سکے۔"
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کئی افراد نے پاکستانی سینیٹ کی قرار داد کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ بعض مقامی رہنماؤں نے اسے پاکستان کا ایک سیاسی حربہ قرار دیا ہے۔
'نشانِ پاکستان سابق بھارتی وزیرِ اعظم کو بھی ملا تھا'
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہٴ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ سید علی گیلانی ہمیشہ سے ہی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی رہے ہیں اور کشمیر میں جو مزاحمت جاری ہے اُس کی وہ اُسی سمت میں قیادت کرتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ شوکت کا کہنا تھا کہ علی گیلانی کی جو قربانیاں رہی ہیں، انہیں مدِ ںظر رکھا جائے تو وہ اس ایوارڈ سے بھی زیادہ عزت افزائی کے مستحق ہیں۔ ان کے بقول اگر پاکستان گیلانی صاحب کی اس سے بھی زیادہ پذیرائی کرتا ہے تو اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
شیخ شوکت کا کہنا تھا کہ پاکستان نے غیر ملکی شخصیات کو یہ اعلیٰ ایوارڑ دینے کا سلسلہ آج شروع نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے جن غیر پاکستانی شخصیات کو اس سے نوازا گیا اُن میں بھارت کے ایک سابق وزیرِ اعظم مرار جی ڈیسائی بھی شامل ہیں۔
شیخ شوکت حسین کے بقول علی گیلانی کو نشانِ پاکستان دینے پر بھارت میں ضرور منفی ردِ عمل ہوگا لیکن اس کی شدت زیادہ نہیں ہو گی اور اس سلسلے میں بعض حلقوں کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔
'سید علی گیلانی پاکستان کے ہی وفادار ہیں'
کشمیر میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر رویندر رینہ کہتے ہیں کہ سید علی گیلانی جیسے لوگ پاکستان کے وفادار اور اُسی کے ایجنٹ ہیں۔
اُنہوں نے الزام لگایا کہ سید علی گیلانی نے پاکستان کے ساتھ مل کر گزشتہ 30،35 برسوں میں بھارت کے خلاف کام کیا ہے اور اُن کو 'نشانِ پاکستان' نوازنے کے اعلان سے ثابت ہو گیا کہ وہ صرف پاکستان کی سنتے ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کے سابق سربراہ شیش پال وید نے منگل کو ایک انٹرویو میں کہا کہ سید علی گیلانی کو سزا دینے کے لیے بھارت میں سیاسی قوتِ ارادی ناپید ہے۔
انہوں نے کہا کہ گیلانی پاکستان کے آلہٴ کار ہیں اور جموں و کشمیر میں برسوں سے جاری خون خرابے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ کے مستحق ہیں کیوں کہ پاکستان اپنے آلہٴ کار کی عزت افزائی کر رہا ہے۔
بھارتی کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پاکستان سید علی گیلانی کو سب سے بڑا سول ایوارڈ دے رہا ہے۔ لیکن بھارت کی حکومت 70 سال سے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرنے والی کشمیری قیادت کے خلاف سرگرم ہے۔
محبوبہ مفتی سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں اور ان کا ٹوئٹر ہینڈل گزشتہ 10 ماہ سے اُن کی صاحبزادی التجا مفتی سنبھال رہی ہیں۔
'گیلانی کو نشانِ پاکستان تو بگٹی کو بھارت رتن دیا جائے'
کئی بھارتی شہریوں نے سوشل میڈیا کا رُخ کر کے پاکستانی پارلیمان کی جانب سے سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان دینے کی سفارش کو ایک غلط اور قابلِ اعتراض فیصلہ قرار دیا ہے۔
بھارتی فوج کے ایک سابق افسر بریگیڈیئر (ر) آر ایس پٹھانیہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "علیحدگی پسند گیلانی کو پاکستان کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ نشان پاکستان دیا جا رہا ہے۔ کیا بھارت انہیں خوش کرنے کے لیے سفری دستاویزات فراہم کرے گا تاکہ وہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے یہ ایوارڈ حاصل کرسکیں یا ہم انہیں وہاں ہمیشہ کے لیے بھیجنے والے ہیں؟"
ایک اور بھارتی شہری ڈاکٹر کپل شرما کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیںیٹ نے گیلانی کو نشانِ پاکستان دینے کے لیے کہا ہے۔ اس صورتِ حال میں بھارت کو ان کے بقول بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے نواب اکبر بگٹی کو بھارت رتن (بھارت کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ) دینا چاہیے۔
خیال رہے کہ نواب اکبر بگٹی اگست 2006 میں بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فوج کی ایک کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔
کشمیر سے نقلِ مکانی کرنے والی ایک ہندو پنڈت خاتون پریتیبا کول نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کو وادی سے بے دخل کرنے کے صلے میں پاکستان علی گیلانی کو اس اعزاز سے نواز رہا ہے۔
اس کے برعکس کئی لوگوں نے جن میں بعض سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین بھی شامل ہیں، سوشل میڈیا پر رائے دی ہے کہ سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان سے نوازا جانا کوئی انوکھا یا غیر متوقع واقعہ نہیں ہے۔
سید علی گیلانی طویل عرصے سے بیمار ہیں اور سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پر گزشتہ 10 برس سے نظر بند ہیں۔
اُنہوں نے گزشتہ ماہ غیر متوقع طور پر کُل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ حریت کانفرنس جموں و کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں قائم ہوا تھا۔ اپنے قیام کے 10 سال بعد قیادت میں اختلافات کی بنا پر یہ اتحاد دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔
کشمیر کے مسئلے پر سخت مؤقف رکھنے والے دھڑے کی قیادت سید علی گیلانی نے سنبھالی تھی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہو گئی تھیں۔
سید علی گیلانی کو چند سال قبل حریت کانفرنس کا تاحیات چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن سید علی گیلانی کے بارے میں اتحاد میں شامل بعض افراد کی یہ رائے تھی کہ انہیں ان کی پیرانہ سالی اور بگڑتی صحت کے پیشِ نظر ایسی سرگرمیوں سے الگ رکھا جائے جنہیں نبھانے میں انہیں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
گیلانی حریت کانفرنس سے کیوں مستعفی ہوئے؟
کشمیر کے بعض حلقوں کے خیال میں پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرنے کے بعد کی صورتِ حال میں سید علی گیلانی ایک فعال کردار ادا کرنے اور لوگوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
سید علی گیلانی نے اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے اپنے ایک کھلے خط میں لکھا تھا کہ پیرانہ سالی، جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض سے نہ ان کے دل و دماغ کی قوت ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ان کے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے۔
انہوں نے لکھا تھا کہ وہ آخری وقت تک 'بھارتی استعمار' کے خلاف نبرد آزما رہیں گے اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتے رہیں گے۔
سید علی گیلانی نے اپنے خط میں حریت کانفرنس (گیلانی) کے کچھ رہنماؤں پر تنقید بھی کی تھی اور اتحاد کی غیر فعالیت پر اپنے ساتھیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا تھا۔