بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت کی نئی میڈیا پالیسی کے خلاف صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے پیر کو ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مقامی صحافیوں کا کہنا تھا کہ حکومت کا نیا قانون آزادیٔ صحافت پر کھلا وار ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر میں ہونے والے مظاہرے میں شریک صحافیوں نے احتجاج کے دوران اپنے ہاتھوں میں بینرز اور مختلف کتبے اٹھا رکھے تھے۔ بینرز پر "صحافت کا منہ بند کرنے کی کوشش نہ کرو، صحافیوں کو ہراساں کرنا بند کرو اور نئی میڈیا پالیسی مردہ باد" کے نعرے درج تھے۔
مظاہرے میں شریک صحافیوں کا کہنا تھا کہ بھارتی کشمیر کی حکومت نے حال ہی میں جو نئی میڈیا پالیسی بنائی ہے، وہ آزادیٴ صحافت پر کھلا وار ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ ذرائع ابلاغ کے ادارے شورش زدہ علاقے کے واقعات اور حالات کے بارے میں مقامی آبادی یا بیرونی دنیا کو باخبر رکھیں۔
سرینگر کے ایک مقامی صحافی امتیاز بزاز نے الزام لگایا کہ حکومت نے بعض ایسے بیورو کریٹس کی ایما پر یہ میڈیا پالیسی تیار کی ہے جو ان کے بقول آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹ کر اپنی نا اہلی اور رشوت خوری پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نئی میڈیا پالیسی سے مقامی اخبارات اور صحافیوں کے ساتھ تمام نیوز چینلز اور خبر رسانی کے دیگر پلیٹ فارمز بھی متاثر ہوں گے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نئی میڈیا پالیسی کا اعلان دو جون کو کیا گیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ کون سی خبر جعلی، غیر اخلاقی یا قوم دشمن ہے۔
نئے قانون کے تحت حکومت اپنے طور پر یہ فیصلہ کر کے خبر دینے والے متعلقہ صحافی یا ادارے کے خلاف قانونی کارروائی بھی کر سکتی ہے جس میں سرکاری اشتہارات روکنا اور سیکیورٹی ایجنسیز کو اطلاعات اور کوائف دینا بھی شامل ہیں۔
پچاس صفحات پر مشتمل سرکاری دستاویز میں اس نئی میڈیا پالیسی کا یہ جواز پیش کیا گیا ہے کہ جمّوں و کشمیر کو امن و امان اور حفاظتی مسائل درپیش ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیر ایک ایسی در پردہ جنگ کے خلاف لڑ رہا ہے جسے سرحد پار سے اعانت حاصل ہے۔ اس لیے ایسی صورتِ حال میں یہ انتہائی اہم ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جو سماج دشمن اور قوم دشمن عناصر کو امن میں رخنہ ڈالنے سے باز رکھ سکیں۔
اس معاملے پر سرینگر کے سرکردہ صحافی اور انگریزی روزنامہ 'کشمیر امیجز' کے ایڈیٹر بشیر منظر کہتے ہیں اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ 'فیک نیوز' کون سی ہے یا کون سی خبر 'اینٹی نیشنل' یا غیر اخلاقی ہے؟
انہوں نے کہا ہم یہ اختیار نہ حکومت کو دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی پولیس والے کو۔ اگر حکومت کو کسی خبر کی صحت یا متن پر اعتراض ہے تو اس کا اعتراض کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ ماہرین کی ایک ٹیم کو سونپا جانا چاہیے نہ کہ دفتر میں بیٹھے کسی سرکاری عہدے دار یا تھانے کے کسی پولیس اہلکار کو۔
واضح رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1989 میں شورش کا آغاز ہوا تھا۔ متنازع علاقے کے صحافی تب سے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔
گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے جمّوں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد مقامی صحافیوں کو ہراساں کرنے کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس اور دیگر حکومتی اداروں کی طرف سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ وہ اس سے خوف زدہ نہیں ہیں لیکن ان کا کام اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔
آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی بھارتی اور بین الاقوامی ادارے بھی کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے پر آواز اٹھا چکے ہیں۔ حال ہی میں 'ایمنسٹی انٹرنیشنل'، 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' اور 'رپورٹرز وِد آوٹ بارڈرز' نے بھارتی کشمیر کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے۔