پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے نے ملک کے 30 سے 40 فی صد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کے انکشاف کے بعد اپنے 150 پائلٹس کو پروازوں سے روک دیا ہے۔
جمعرات کو جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ مذکورہ پائلٹس کو جعلی لائسنس رکھنے کے الزامات کے تحت گراؤنڈ کیا گیا ہے۔
ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ' پریس کو بتایا کہ "ہم یقینی بنائیں گے کہ یہ پائلٹ دوبارہ جہاز نہ اُڑا سکیں۔ لہذٰا ان کی برطرفی کے عمل کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔"
عبد اللہ حفیظ نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ پائلٹ جعلی لائسنس کس طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بدھ کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے طیارے کو گزشتہ ماہ کراچی میں پیش آنے والے حادثے کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے انکشاف کیا تھا کہ پی آئی اے میں کام کرنے والے 30 سے 40 فی صد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔
غلام سرور خان نے کہا تھا کہ پائلٹس کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹس کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کراچی میں طیارے کے حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے حادثے کا ذمہ دار پائلٹس اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیا گیا تھا۔
'تمام جہاز چلتے پھرتے میزائل لگتے ہیں'
جمعرات کو سپریم کورٹ میں کرونا وائرس کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ایئر لائنز پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ایوی ایشن سے دو ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔
سماعت کے دوران پی آئی اے اور دیگر ایئر لائنز کے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے تذکرے پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام جہاز چلتے پھرتے میزائل لگتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن پیسے لے کر پائلٹس کو لائسنس جاری کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پائلٹ چلتا ہوا میزائل اڑا رہے ہوں۔ وہ میزائل جو کہیں بھی جا کر مرضی سے پھٹ جائے۔
کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے پر چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ بتایا گیا کہ 15 سال پرانے جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا۔ سارا ملبہ پائلٹ اور سول ایوی ایشن پر ڈالا گیا۔ لگتا ہے ڈی جی سول ایوی ایشن کو بلانا پڑے گا۔ بتایا جائے کہ جعلی ڈگریوں والے پائلٹوں کے ساتھ کیا گیا ہے؟
عدالت نے حکم دیا کہ بتایا جائے کہ پائلٹوں کو جعلی لائسنس کیسے اور کیوں جاری ہوئے؟ جعلی لائسنس دینے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنا سنگین جرم ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ تمام ایئر لائنز کے سربراہان پائلٹس کی ڈگریوں اور لائسنس کی تصدیق پر مبنی رپورٹس عدالت کو فراہم کریں۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بحث کے ساتھ ساتھ موجودہ اور سابقہ حکومتوں پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
ملک کے مشہور صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ پی آئی اے کے 40 فی صد پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔ یہ دعویٰ دل دہلا دینے والا ہے۔
حامد میر کے بقول غلام سرور خان کے دعوے کے بعد پی آئی اے کی بین الاقوامی پروازوں پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ لہذا لائسنس جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے وفاقی وزیر غلام سرور خان کی پیش کردہ رپورٹ پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ملک چلانے اور جہاز چلانے والے کپتان کا فرق یہ ہے کہ اول الذکر اپنے آپ کو بچانے کے لیے قومی جہاز ڈبو دیتا ہے لیکن جہاز کا کپتان ایسا کرے تو پہلے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
ان کے بقول یوں جہاز کا کپتان کبھی بھی ملک چلانے والے کپتان جیسا غافل نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح ایک اور صحافی خاور گھمن نے سابقہ حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹ میں لکھا کہ طیارے کے حادثے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اب کیا کسی شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کس طرح جمہوریت پسندوں نے پی آئی اے کا بیڑا غرق کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پائلٹوں کو اس طرح بھرتی کیا گیا جیسے جہاز نہیں رکشہ چلانا ہے۔
اسی طرح ایک ٹوئٹر صارف علی معین نواز نے سوال کیا کہ پی آئی اے میں 150 پائلٹ جعلی ڈگریوں کے ساتھ کیسے ہو سکتے ہیں؟ جب کہ اس سے ہم بات یہ ہے کہ کسی نے اس حوالے سے کچھ کیا کیوں نہیں؟
پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کے حوالے سے خبر سامنے آنے کے بعد اس پر بھی سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جانے لگے۔
ملک میں موجود پائلٹس کی تعداد کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔ قبل ازیں صحافی حامد میر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے پاکستان میں پائلٹس کی مجموعی تعداد 860 بتائی ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ غلام سرور خان نے ان پائلٹس میں 262 کے لائسنس مشکوک قرار دیے تھے۔
اواب علوی نامی صارف نے ٹوئٹ کی کہ 262 پائلٹ جعلی ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ملک کی قومی ایئر لائن کو تباہ کیا۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حکومت نے کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کی ابتدائی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہے۔ یہی ہماری حکومت کا وعدہ تھا جب کہ اس عوام کو اعتماد میں لیا جانا تھا۔
شیریں مزاری نے مزید کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پرتا ہے کہ کئی دہائیوں کی بدعنوانی، سیاسی بھرتیوں، پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں اور سول ایوی ایشن کے خراب حالات ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے اس حوالے سے ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے نااہل وفاقی وزیر ہوا بازی نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا۔
پاکستان میں پائلٹس کے پاس جعلی لائسنس ہونے کے بیان پر احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی وزیر اس بیان سے ملک کی ایئر لائن انڈسٹری تباہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کوئی اس معاملے کی وضاحت کے لیے آگے آئے گا۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیرِ اعظم عمران خان کے سابقہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو یہ کہنے کی عادت تھی اگر ریل گاڑی کا حادثہ ہوا ہے تو وزیر ریلوے کو برطرف کر دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی طیارہ حادثہ ہوا ہے تو وزیر ہوا بازی کو نکال دینا چاہیے۔ اب طیارہ حادثے پر وہ پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے حادثے کی شفاف تحقیقات کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر غلام سرور خان کے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے ادوارِ حکومت میں جعلی سندوں اور جعلی سرٹیفکیٹ پر پائلٹ بھرتی کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے ایسے 262 پائلٹوں کو پکڑا اور سزائیں بھی دی ہیں۔ ہر محکمے میں بدعنوانی اور اور گندگی ہے۔ عمران خان کو ایک ایک چیز ٹھیک کرنی پڑ رہی ہے۔
ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ جب غلطی پکڑی جاتی ہے تو یونین بچانے آ جاتی ہے۔
شہباز گل نے کہا کہ جعلی ڈگریاں اور جعلی لائسنس رکھنے کے باوجود ہمیں یہ زعم ہوتا ہے کہ جیسے ساری دنیا سے بہترین ہم ہیں۔ اب ہمیں غلطیوں پر سزائیں دینی ہوں گی اور ہر مافیا جو اس میں رکاوٹ بنے اسے نظر انداز کرنا ہوگا۔