پاکستان کے سرکاری ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ رواں ہفتے افغانستان میں پاکستانی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
پاکستان نے کابل میں چار ماہ قبل اپنے سفیر پر قاتلانہ حملے کے بعد انہیں ملک واپس بلا لیا تھا۔
حکومتِ پاکستان کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستانی سفیر عید الفطر سے قبل کابل روانہ ہوجائیں گے۔
افسر نے مزید تفصیلات دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سفارتی معاملات میں اخفا سیکیورٹی وجوہات پر رکھا جاتا ہے۔
کابل میں سفیر کی تعیناتی کا فیصلہ وزیرِِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے افغانستان پر قابض طالبان حکومت کے ہم منصب امیر خان متقی کے ساتھ فون کال کے بعد کیا گیا ہے۔
دونوں جانب سے اس فون کال کے بارے میں بیانات ہفتے کے روز جاری کیے گئے تھے لیکن سرکاری طور پر پاکستانی سفیر عبیدالرحمٰن نظامانی کے کابل روانہ ہونے کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی گئی تھی۔
SEE ALSO: افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ’ کامریڈری‘ ہے مگر وہ فاصلہ چاہتے ہیں، خواجہ آصفطالبان کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں بتایا تھا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بلاول بھٹو زرداری سے دوطرفہ معاملات پر گفتگو کی ہے جن میں سیاسی، معاشی، تجارتی اور نقل و حرکت سے متعلق معاملات شامل تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ دونوں جانب نے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد نے اس فون کال پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ دلچسپی کے امور پر گفتگو کی تاہم ان امور کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیرِ خارجہ نے مستحکم، پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان کے پاکستان کے عزم کو دہرایا۔
پاکستانی سفیر عبدالرحمٰن نظامامی گزشتہ برس دو دسمبر کوکابل میں سفارت خانے میں معمول کی چہل قدمی میں مصروف تھے کہ جب کچھ مسلح ملزمان نے ان پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔ اگرچہ وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے لیکن ان کے پاکستانی سیکیورٹی گارڈ کی ٹانگ پر گولیاں لگیں۔
پاکستان نے اس حملے کے بعد سفیر کو وطن واپس بلالیا تھا اور طالبان سے پاکستانی سفارت خانے کی سیکیورٹی مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ افغانستان میں سرگرم داعش خراسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس واقعے کے بعد پاکستان اور طالبان انتظامیہ کے تعلقات میں دراڑ نظر آئی تھی۔
SEE ALSO: طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کے بارے میں افغان عوام کتنا جانتے ہیں؟ابھی تک پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دنیا طالبان سے عورتوں کی تعلیم اور انسانی حقوق کے سلسلے میں ریکارڈ بہتر کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
پاکستان، چین، روس، ترکی اور ایران سمیت کئی ممالک نے طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں اپنے سفارت خانے بحال رکھے ہیں۔ جب کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے اپنے سفارت خانے افغانستان سے نکال کر قطر منتقل کر دیے ہیں تاکہ ملک کی دو تہائی آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد دینے میں مدد کی جا سکے۔
اتوار کے روز طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہےکہ بلاول بھٹو زرداری نے امیر خان متقی کو یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان آنے والے دنوں میں سفری کاغذات نہ ہونے کے باعث قید کیے گئے افغان مہاجرین کو رہا کر دے گا۔ اس بیان میں اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد بدتر ہوتی صورتِ حال کے پیش نظر تین لاکھ سے زائد افغان شہریوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ پاکستانی حکام کا اندازہ ہے کہ ان میں سے ایک لاکھ سے زائد افراد کے پاس ویزا تھے۔