جب پاکستان نے سیمی فائنلز میں نیوزی لینڈ کا راستہ روکا

پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں ایک بار پھر ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں آمنے سامنے ہیں اور پاکستانی شائقین یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ گرین شرٹس سیمی فائنلز میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے بہترین ریکارڈ کو آگے بڑھائیں گے۔ دونوں ٹیمیں ورلڈ کپ کے علاوہ کئی ٹورنامنٹس میں ناک آؤٹ مرحلوں میں مدِ مقابل آئیں جن میں بیشتر میچز میں پاکستان نے میدان مارا۔

فائنل میں جگہ بنانے کے لیے نو نومبر کو سڈنی میں پاکستان کی ٹیم نیوزی لینڈ کا سامنا کرے گی جب کہ انگلینڈ اور بھارت کی ٹیمیں دس نومبر کو ایڈیلیڈ میں مدمقابل ہوں گی، ایونٹ کا فائنل13 نومبر کو میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں ہوگا۔

سیمی فائنل میں پہنچنے والی چاروں ٹیموں میں سے نیوزی لینڈ وہ واحد ٹیم ہے جو اب تک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی نہیں جیت سکی ورنہ بھارت نے 2007، پاکستان 2009 اور انگلینڈ نے 2010 میں ٹی ٹوئنٹی چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔

گزشتہ برس نیوزی لینڈ کی ٹیم فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی جہاں آسٹریلیا نے اسے شکست دے کر پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

میگا ایونٹس میں نیوزی لینڈ کی پیش قدمی کو کئی مرتبہ سیمی فائنل میں جس ٹیم نے روکا وہ پاکستان ہے اور اس مرتبہ بھی سیمی فائنل میں بلیک کیپس کا سامنا گرین شرٹس سے ہوگا۔


ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ میں کھیلی گئی سہ ملکی سیریز میں پاکستان نے میزبان ملک کو شکست دے کر ٹرافی تو اپنے نام کی۔ لیکن نیوزی لینڈ کے مقابلے میں آسٹریلیا کے گراؤنڈ بھی بڑے ہیں اور یہاں کی وکٹ بھی زیادہ باؤنسی ہے جو ٹیم اس پر بہتر کارکردگی دکھائے گی اس کی جیت کے امکانات زیادہ ہوں گے۔

'انٹرنیشنل ایونٹس کے سیمی فائنل میں پاکستان کو نیوزی لینڈ پر برتری حاصل ہے'

پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں پہلی مرتبہ کسی بڑے ایونٹ کے سیمی فائنل میں 1986 میں مدمقابل آئیں، یہ وہی ٹورنامنٹ تھا جس کے فائنل میں جاوید میانداد نے بھارت کے خلاف چیتن شرما کی آخری گیند پر چھکا مار کر پاکستان کو فاتح بنایا۔ سیمی فائنل میں لیگ اسپنر عبدالقادر کی تباہ کن بالنگ کے سامنے کیویز بے بس نظر آئے اور پوری ٹیم صرف 64 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔


عبدالقادر نے اس سیمی فائنل میں صرف نو رنز کے عوض چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پاکستان نے 65 رنز کا ہدف بغیر کسی نقصان کے حاصل کرکے فائنل میں جگہ بنائی۔یہ پاکستان کی ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں10 وکٹوں سے پہلی کامیابی تھی اور اس کا اگلا میچ جیت کر پاکستان نے پہلی مرتبہ کوئی انٹرنیشنل ٹرافی اپنے نام کی۔

چار سال بعد شارجہ ہی کے مقام پر وقار یونس کی 20 رنز کے بدلے پانچ وکٹوں نے کیویز کو 74 رنز پر محدود کردیا جس میں 47 رنز صرف اینڈریو جونز کے تھے۔ جواب میں پاکستان نے سلیم ملک کے 31 ناٹ آؤٹ کی بدولت مقررہ ہدف 16 ویں اوور میں حاصل کرکے فائنل کے لیے کوالی فائی کیا۔

چار سال بعد پاکستان اور نیوزی لینڈ کا اسی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں مقابلہ ہائی اسکورنگ رہا جس میں انضمام الحق اور عامر سہیل کی 263 رنز کی ورلڈ ریکارڈ پارٹنرشپ کی وجہ سے پاکستان نے 2 وکٹ کے نقصان پر 328 رنز بنائے۔

انضمام الحق نے اس میچ میں ناقابل شکست 137 رنز اسکور کیے جو سعید انور کے 194 رنز سے قبل پاکستان کا سب سے بڑا انفرادی اسکور تھا۔ عامر سہیل بھی 134 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔


جواب میں کیوی ٹیم 50 اوورز میں سات وکٹ پر صرف 266 رنز بناسکی اور وکٹ کیپر ایڈم پرورے کے 82 رنز ٹیم بھی ٹیم کو 35 رنز کی شکست سے نہ بچاسکے۔

اب کچھ بات ورلڈ کپ کی جس میں دو بار پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں مدمقابل آئیں اور دونوں بار پچاس اوور کا یہ میچ پاکستان نے جیتا، پہلی بار یہ ٹاکرا 1992 میں اس وقت ہوا جب پاکستان ٹیم لیگ میچ میں ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچی اور وہاں بھی گرین شرٹس نے شان دار کھیل پیش کرکے فتح سمیٹی۔



آکلینڈ کے مقام پر کھیلے گئے اس میچ میں انضمام الحق کی جارحانہ بلے بازی اور جاوید میانداد کی ناقابلِ شکست اننگز سب ہی کو یاد ہے جس کی بدولت پاکستان نے 263 رنز کا ہدف 49ویں اوور میں حاصل کرکے فائنل میں جگہ بنائی۔

سات سال بعد ورلڈ کپ 1999 کے سیمی فائنل میں بھی پاکستان نے نیوزی لینڈ کو مات دے کر فائنل میں جگہ بنائی۔ اولڈ ٹریفورڈ میں کھیلے گئے اس میچ میں نیوزی لینڈ کے سات وکٹ پر 241 رنز کے جواب میں پاکستان نے ہدف 48ویں اوور میں حاصل کرکے فتح حاصل کی۔


پاکستانی اننگز کی خاص بات سعید انور کی ناقابل شکست سینچری تھی وہ 113 رنز بناکر آخر تک وکٹ پر کھڑے رہے۔ انہوں نے وجاہت اللہ واسطی کے ساتھ 40 اووروں میں 194 رنز جوڑ کر پاکستان کو شان دار آغاز فراہم کیا تھا۔

ان دونوں ٹورنامنٹس کے برعکس جب بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں ٹکرائیں، پاکستان ٹیم کا سفر وہی ختم ہوگیا، سن 2000 میں جب نیوزی لینڈ نے ایونٹ کی ٹرافی جیتی تو اسے فائنل میں جگہ بنانے کے لیے اسی پاکستان سے کھیلنا پڑا جس نے ایک سال قبل انہیں ورلڈ کپ میں زیر کیا تھا۔


کینیا کے شہر نیروبی میں کھیلے گئے اس میچ میں سعید انور کے 104 رنز بھی پاکستان کو شکست سے نہ بچاسکے۔ 50 ویں اوور میں 252 رنز بناکر آؤٹ ہونے والی پاکستان ٹیم ہدف کا دفاع نہ کرسکی اور راجر ٹووز کے 87 رنز کی وجہ سے کیویز نے کسی بڑے ایونٹ کے سیمی فائنل میں پاکستان کو پہلی بار شکست سے دوچار کیا۔

نو سال بعد آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ایک اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو پانچ وکٹ سے شکست دے کر فائنل کے لیے کوالی فائی کیا۔ جوہانسبرگ میں کھیلے گئے میچ میں گرین شرٹس 234 رنز کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ فاسٹ بالر اینن بٹلر کی چار وکٹیں اور آل راؤنڈر گرانٹ ایلیوٹ کے 75 رنز نیوزی لینڈ کو فتح دلانے میں اہم ثابت ہوئے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں دونوں ٹیمیں صرف ایک ہی مرتبہ آمنے سامنے آئی ہیں، یہ مقابلہ سن 2007میں ہونے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ہوا تھا جس میں کامیابی حاصل کرکے پاکستان نے فائنل میں جگہ بنائی تھی۔

دونوں ٹیموں کا سیمی فائنل کا سفر کیسا رہا؟

اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کی کارکردگی دوسری ٹیموں کے مقابلے میں بہتر رہی۔ ایونٹ کے پہلے میچ میں آسٹریلیا کے خلاف نہ صرف 200 رنز بنائے تھے بلکہ دفاعی چیمپئن کو 89 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔

افغانستان کے خلاف ان کا میچ بارش کی نذر ہو گیا تھا جب کہ سری لنکا کوانہوں نے 65 رنز اور آئرلینڈ کو 35 رنز سے شکست دی تھی۔ انہیں ٹورنامنٹ میں واحد شکست انگلینڈ نے دی لیکن اس شکست کا مارجن بھی صرف 20 رنز رہا۔


اس کے برعکس پاکستان ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی آخری میچ تک دوسری ٹیموں کی مرہون منت رہی۔ پہلے میچ میں بھارت نے انہیں سنسنی خیز مقابلے کے بعد چار وکٹ سے اور دوسرے میچ میں زمبابوے نے ایک رن سے شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی کی پاکستان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔

لیکن پھر بابر اعظم الیون نے نیدرلینڈز کو چھ وکٹ،جنوبی افریقہ کو 33 رنز اور بنگلہ دیش کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔


سپر 12 مرحلے کے آخری دن کے پہلے میچ میں اگر جنوبی افریقی ٹیم نیدرلینڈز سے نہ ہارتی تو پاکستان ٹیم کے بجائے جنوبی افریقہ سیمی فائنل کھیل رہی ہوتی۔