پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع لودھراں میں ریل گاڑی اور موٹر سائیکل رکشہ کے درمیان ٹکر سے اسکول جانے والے سات بچے ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے میں چار طالب علم زخمی بھی ہوئے، جن کی عمریں پانچ سے آٹھ سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔
لاہور سے کراچی جانے والے ریل گاڑی ایک پھاٹک سے گرز رہی تھی جب ایک رکشہ اُس کی زد میں آ گیا۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ پھاٹک کھلا تھا اور ’’سگنل اپ‘‘ تھا۔ اُن کے بقول ایسی صورت حال میں ریل گاڑی کو پھاٹک کراس نہیں کرنا چاہیئے تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ’’ابھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ ریل گاڑی کے ڈرائیور کی غلطی ہے یا شدید دھند اس حادثے کی وجہ بنی‘‘۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق صبح کے وقت شدید دھند میں رکشہ ڈرائیور جب پھاٹک عبور کر رہا تھا تو اُس دوران بظاہر رکشہ چلانے والے شخص کو ریل گاڑی کی رفتار کو جانچنے میں غلطی ہوئی۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جس ریلوے کراسنگ پر یہ حادثہ پیش آیا وہاں تعینات دونوں ’’گیٹ کیپرز‘‘ کو تحویل میں لے کر اُن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی بچوں کو اسکول لے جانے والی گاڑیوں یا رکشوں کے پھاٹک پر ریل گاڑیوں سے ٹکرانے کے حادثات ہو چکے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ ریلوے کراسنگ پر پھاٹک کا نا ہونا بتائی جاتی ہے۔
پاکستان میں ریل گاڑی کے حادثات کوئی غیر معمولی واقعات نہیں ہیں اور اکثر ان کی وجہ لائنوں اور سگنل نظام میں خرابی اور عملے کی غفلت بتائی جاتی ہے۔