تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات: ایک تجزیہ

  • بہجت جیلانی

فائل

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات درج کرنے کے اعلان پر تجزیہ کاروں نے پروگرام 'جہاں رنگ' میں بات کرتے ہوئے، کارروائی کا خیر مقدم کیا۔ لیکن، ساتھ ہی ساتھ، کچھ تحفظات کا بھی اظہار ہوا۔

پاکستان سے دفاعی و سیاسی امور کے تجزیہ کار اور کالم نگار بریگیڈئر (ر) عمران ملک کہتے ہیں کہ عشروں کے بعد کسی حکومت نے قانون کی بالا دستی کو قائم کرتے ہوئے ''انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا'' ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ معمول بن چکا ہے کہ فرقہ واریت، لسانی بنیادوں اور مذہب کے نام پر صورتحال کو خراب کیا جاتا ہے؛ اور معاشرے میں نفرت اور انتہا پسندی کو ہوا دی جاتی رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ''حکومت کی اس کارروائی سے ایسے عناصر کو ایک ٹھوس پیغام جاتا ہے کہ اس نوعیت کی شر انگیز کارروائیوں کو برداشت نہیں کیا جایئگا۔'' دفاعی امور کے تجزیہ کار نے اِسے وقت کی ضرورت قرار دیا۔

لندن سے سٹریٹیجک تجزیہ کار، شمع جونیجو کہتی ہیں کہ ''پی ٹی آئی کی حکومت قابل ستائش ہے کہ اس نے ایک حساس صورتحال کو دانشمندی سے سنبھالا ہے''۔

لیکن، اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ''مخصوص اداروں کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ ایسے عناصر کی حمایت نہ کریں جو بعد کو خود انہی کے لئے درد سر بن جائیں''۔

انہوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ حکومت کے سخت سے سخت مخالف بھی حکومت کی طرف سے انتہا پسندوں کو دئے جانے والے اس پیغام کو سراہیں گے کہ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے۔

واشنگٹن کے 'کاٹو انسٹی ٹیوٹ' سے 'فیلو ریسرچر'، سحر خان کا کہنا ہے کہ ''حکومت کے اس اقدام سے مغرب کو یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ پاکستان انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے پر عزم ہے''؛ لیکن، خود اُن کے، اس بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے بھی حافظ سعید، ذکی الرحمٰن اور فضل الرحمن خلیل کی گرفتاریاں ہوئیں۔ لیکن، واضح طور پر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ اس اقدام کا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہے یا نہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات: ایک تجزیہ