لوگ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے کے لئے اپنے اپنے دفتروں اور فیکٹری و کارخانوں سے چھٹیاں لے کر یہاں پہنچتے ہیں، ایک کشش اور بھی ہے جو انہیں یہاں تک کھینچ لاتی ہے ۔ ۔۔اور وہ ہے مہنگے مہنگے انعامات کی کشش
پاکستان میں نجی ٹی وی چینلزکا آج کل پھر ایک نیا رخ نظر آرہا ہے۔ ایک ایسا رخ جواس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ دوپہر دھلتی نہیں کہ ٹی وی چینلز کے دروازوں پر گاڑیاں بھر بھر کر لوگ جوق در جوق پہنچنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ عمارتوں کے اندر جانے کے لئے بھی سینکڑوں لوگ لائن لگائے کھڑے رہتے ہیں۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا نام بھی مہمانوں کی فہرست میں درج ہوجائے اور وہ آن کے آن اسٹوڈیومیں پہنچ جائے۔
یہ ٹی وی گلیمر کی کشش تو ہے ہی کہ لوگ اسکرین پر نظر آنے کے لئے اپنے اپنے دفتروں اور فیکٹری و کارخانوں سے چھٹیاں لے کر یہاں پہنچتے ہیں، ایک کشش اور بھی ہے جو انہیں یہاں تک کھینچ لاتی ہے ۔ ۔۔اور وہ ہے مہنگے مہنگے انعامات کی کشش، زورہ افطارکی سہولت اور لک کام کرجائے تو کار، موٹرسائیکل اور عمرے پر جانے کے مفت ٹکٹس حاصل کرنے کی خواہش۔
اس وقت ملک کا ہر چھوٹا بڑا چینل رمضان شوز لائیو پیش کررہا ہے جس میں شرکت کرنے والے لوگوں کو سب سے پہلے افطار کی سہولت دی جاتی ہے۔ ۔۔وہ بھی پر لطف افطار۔ شہر کے مہنگے ترین برانڈز کے افطار آئٹمز، شربت کی بوتلیں، منرل واٹر اور مزیدار کھانے۔یعنی ایسے آئٹمز کی بھرمار جو ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔
یہی نہیں بلکہ پروگرام میں شرکت کے دوران ہی آپ کو نہایت آسان سوالات پر جدید ترین موبائل فونز، موٹر بائیک، کار ، گفٹ واچرز، گھریلو استعمال کی نئی مشینری ، گھڑیاں، گفٹ ہیمپرز جیسے درجنوں آئٹمز جیتنے کا ہی نہیں بلکہ’ لوٹنے‘ کاموقع دیا جارہا ہے کیوں کہ اگر آپ کو اینکر کے کرتے کا کلر بتانے، اسی دن اپنی شادی کی سالگرہ کی تاریخ پڑنے، روزوں کی تعداد بتانے اور آج کیا دن ہے ۔۔جیسے سوالات کے جواب پر 60ہزار کا موبائل یا لاکھ روپے کی موٹر بائیک اور تین چار سوالات پر کار جیتنے کا موقع ملے تو اسے انعام ’لوٹنا‘ ہی کہا جائے گا۔
پروگرام کو دوسرا رخ
افطار شوزافطار کے لائیو پروگرامز کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ آج جتنے بھی چینلز سے دینی یا مذہبی پروگرام پیش ہورہے ہیں ان میں غریب، کم آمدنی والے یا نادار لوگوں کی مالی معاونت بھی کی جارہی ہے ۔ ناصرف ٹی چینلز انتظامیہ کی جانب سے بلکہ ٹی وی کے ذریعے مخیر افراد سے اپیل کے ذریعے بھی مالی معاونت طلب کی جاتی ہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں روپے جمع ہوجاتے ہیں۔
آنسو وٴں اور جذبات کی عکاسی
ٹی وی اسکرین پر بیماروں سے ہمدردری کے ساتھ ساتھ ان کے مفت علاج معالجے کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنا اس وقت زیادہ آسان ہوجاتا ہے جب آن اسکرین بیمار یا غریب فرد خصوصاً عورتین اور بچے آنسووٴں اور ہچکیوں کے ساتھ آپ سے مدد کی اپیل کریں ۔ ایسے میں خود پروگرام کے اینکر کاضبط ٹوٹ جانا یا حددرجہ جذباتی ہوجانا ماحول کو اور زیادہ افسردہ بنادیتا ہے۔ رہی سہی کسر اداسی میں ڈوبا ہوا بیک گراوٴنڈمیوزک پوری کردیتا ہے۔
حیران کن وجوہات
ایسے پروگرامز یا شوز پیش کرنے کی وجوہات بہت حد تک حیران کن بھی ہیں۔ مثلاًاس طرح اسکرین پر کچھ ایسا نیا اور جدت آمیز کرنے کا کریز بڑھ رہا ہے کہ جسے پورا ملک ہر روزدیکھ رہا ہے۔ ورنہ عام پروگرامز یا روٹین شوز کے دیکھنے والے نہیں رہے۔ گویا ایسے پروگرامز چینلز کی ریٹنگ میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
کروڑوں کی اسپانسر شپ
دوسری اہم وجہ وہ اسپانسرز ہیں جنہیں جذبات، ہمدردی، آنسووٴں اور ہچکیوں کے درمیان اپنے اشتہارات لوگوں کی بہت بڑی تعداد تک پہنچانے کانیا موقع مل رہا ہے۔ بے شک وہ کروڑوں روپے انویسٹ کررہے ہیں ۔ایک جانب تمام افراد کے لئے افطار کے سامان اور کھانے پر بھاری رقم خرچ کرنا پڑرہی ہے تو دوسری جانب ٹی وی چینلز کو اشتہارات چلانے کے بھی پیسے دے رہے ہیں ۔ گویا انہیں ہر سیکنڈ پر لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑرہے ہیں۔
دیوہیکل اور انتہائی مہنگے سیٹس
ان پروگرامز کو جس انداز سے اور جس طرح کے سیٹس پر پیش کیا جارہا ہے وہ بھی کسی طور دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس وقت سب سے بڑا سیٹ جیو ٹی وی نے ”پہچان رمضان “ کے لئے تیار کرایا ہے۔اس سیٹ پر ابتدا میں 500افراد کی گنجائش رکھی گئی تھی مگر پروگرام کے معروف اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے مطابق اس وقت پروگرام میں ساڑھے سات سو افراد ایک ساتھ زوزانہ افطار کرتے ہیں۔ سیٹ پر جو ایکوریم تالاب کی شکل میں بنایا گیا ہے اس کایومیہ کرایہ ساٹھ سے ستر ہزار ہے جبکہ سیٹ پر ہرن، طوطے، مور اور دیگر دلکش جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔ پھر انگنت لائٹنگ جدید آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ سسٹم دیگر آلات و ساز وسامان روزانہ کی صفائی ، تزئین و آرائش یہ سب مل کر سیٹ پریومیہ کئی لاکھ روپے بنتے ہیں۔اس تالاب کو روزانہ تین ٹینکر تازہ پانی درکار ہوتا ہے۔
سہ پہر سے شروع ہوکر روزہ افطار ہونے تک چلنے والی رمضان ٹرانسمیشن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی معروف شخصیات بھی بطور مہمان شرکت کرتی ہیں ۔ ان میں مذہبی اسکالرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ یہ مذہبی اسکالر مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور پروگرام کے بیچ بیچ میں لوگوں کے سوالات اور دینی مسائل کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ اینکرز بھی مذہبی معاملات پر ہلکے پھلکے انداز میں بحث کرتے نظر آتے ہیں۔
جیو ٹی وی کے علاوہ اے آر وائی ڈیجیٹل بھی اسی قسم کا ایک شو کررہا ہے جس کے میزبان مایا خان اور ڈاکٹر شاہد مسعودہیں۔ پچھلے دنوں اس پروگرام میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے آن کیمرہ اسلام قبول کیا۔
ادھر ’ہم ٹی وی‘ سے نور الحسن اور مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی بھی ’نور رمضان ‘کے نام سے ایک پروگرام کررہے ہیں۔”ایکسپریس“ ٹی وی نے ایک طرف تو شاہد آفرید ی کو افطار شو کے لئے بک کیا ہوا تو دوسری جانب اسی گروپ کا ایک اور چینل’ہیرو‘ وینا ملک کا پروگرام ’استغفار‘پیش کررہا ہے۔
تنقیدی پہلو
پروگرام کے جہاں بہت سارے مثبت پہلو اس وقت موضوع بحث ہیں تووہیں کچھ ناقدین اسے تنقیدی نظر سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایک مذہبی اسکالر عبدالرحمن کا کہنا ہے ”اس طرح کے پروگراموں سے معاشرے میں ”مانگنے “ کاعنصر وسعت پارہا ہے۔ جو لوگ آٹھ یا دس ہزار روپے مہینہ کماتے ہیں انہیں بھی ٹی وی پر لاکر مدد مانگنا خود ان کو ”منگتا“بنارہا ہے ۔ اس طرح معاشرے سے سفید پوشی ختم ہوتی جائے گی اور لوگ مانگنے کو اچھا سمجھنے لگیں گے“
ایک اور ناقد حنا تبسم کا کہنا ہے ”جب سے یہ پروگرام شروع ہوئے ہیں سڑکوں پر مانگنے والوں کی تعداد کم اور ٹی وی چینلز پر زیادہ نظر آنے لگی ہے ۔ کوئی اپنے آپ کو یتیم خانے کا بتا رہا ہے تو کوئی بے آسرا۔ اسلام میں بے آسرااور بے گھر بزرگ شہریوں، زیادتیوں کا شکار بچوں اور اسی قسم کے دوسرے پسے ہوئے اور مجبور طبقے کے افراد کی مدد کرنے کے لئے اس طرح کہا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے مگر اب یہ سب ٹی وی پر آرہا ہے۔ گویا نیکیوں کی تشہیر ہورہی ہے۔ “
بھارتی چینلز پر پابندی
رمضان کی نشریات کو زیادہ سے زیادہ ویور شپ دینے کے لئے کیبل والوں نے تمام بھارتی چینلز کی نشریات پہلے یا دوسرے روزے سے ہیں دکھانا بند کر رکھی ہیں ۔ نارتھ ناظم آباد کے ایک کیبل آپریٹر تسلیم کا کہنا ہے کہ پیمرا نے انہیں بھارتی چینل بند کرنے کے لئے کہا ہے جبکہ کیبل آپریٹرز بعض علاقوں میں ٹکرز بھی چلارہے ہیں جن میں چینل بند کرنے کی ذمے داری پیمر ا پر عائد کی گئی ہے جبکہ پیمرا نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے۔
یہ ٹی وی گلیمر کی کشش تو ہے ہی کہ لوگ اسکرین پر نظر آنے کے لئے اپنے اپنے دفتروں اور فیکٹری و کارخانوں سے چھٹیاں لے کر یہاں پہنچتے ہیں، ایک کشش اور بھی ہے جو انہیں یہاں تک کھینچ لاتی ہے ۔ ۔۔اور وہ ہے مہنگے مہنگے انعامات کی کشش، زورہ افطارکی سہولت اور لک کام کرجائے تو کار، موٹرسائیکل اور عمرے پر جانے کے مفت ٹکٹس حاصل کرنے کی خواہش۔
اس وقت ملک کا ہر چھوٹا بڑا چینل رمضان شوز لائیو پیش کررہا ہے جس میں شرکت کرنے والے لوگوں کو سب سے پہلے افطار کی سہولت دی جاتی ہے۔ ۔۔وہ بھی پر لطف افطار۔ شہر کے مہنگے ترین برانڈز کے افطار آئٹمز، شربت کی بوتلیں، منرل واٹر اور مزیدار کھانے۔یعنی ایسے آئٹمز کی بھرمار جو ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔
یہی نہیں بلکہ پروگرام میں شرکت کے دوران ہی آپ کو نہایت آسان سوالات پر جدید ترین موبائل فونز، موٹر بائیک، کار ، گفٹ واچرز، گھریلو استعمال کی نئی مشینری ، گھڑیاں، گفٹ ہیمپرز جیسے درجنوں آئٹمز جیتنے کا ہی نہیں بلکہ’ لوٹنے‘ کاموقع دیا جارہا ہے کیوں کہ اگر آپ کو اینکر کے کرتے کا کلر بتانے، اسی دن اپنی شادی کی سالگرہ کی تاریخ پڑنے، روزوں کی تعداد بتانے اور آج کیا دن ہے ۔۔جیسے سوالات کے جواب پر 60ہزار کا موبائل یا لاکھ روپے کی موٹر بائیک اور تین چار سوالات پر کار جیتنے کا موقع ملے تو اسے انعام ’لوٹنا‘ ہی کہا جائے گا۔
پروگرام کو دوسرا رخ
افطار شوزافطار کے لائیو پروگرامز کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ آج جتنے بھی چینلز سے دینی یا مذہبی پروگرام پیش ہورہے ہیں ان میں غریب، کم آمدنی والے یا نادار لوگوں کی مالی معاونت بھی کی جارہی ہے ۔ ناصرف ٹی چینلز انتظامیہ کی جانب سے بلکہ ٹی وی کے ذریعے مخیر افراد سے اپیل کے ذریعے بھی مالی معاونت طلب کی جاتی ہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں روپے جمع ہوجاتے ہیں۔
آنسو وٴں اور جذبات کی عکاسی
ٹی وی اسکرین پر بیماروں سے ہمدردری کے ساتھ ساتھ ان کے مفت علاج معالجے کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنا اس وقت زیادہ آسان ہوجاتا ہے جب آن اسکرین بیمار یا غریب فرد خصوصاً عورتین اور بچے آنسووٴں اور ہچکیوں کے ساتھ آپ سے مدد کی اپیل کریں ۔ ایسے میں خود پروگرام کے اینکر کاضبط ٹوٹ جانا یا حددرجہ جذباتی ہوجانا ماحول کو اور زیادہ افسردہ بنادیتا ہے۔ رہی سہی کسر اداسی میں ڈوبا ہوا بیک گراوٴنڈمیوزک پوری کردیتا ہے۔
حیران کن وجوہات
ایسے پروگرامز یا شوز پیش کرنے کی وجوہات بہت حد تک حیران کن بھی ہیں۔ مثلاًاس طرح اسکرین پر کچھ ایسا نیا اور جدت آمیز کرنے کا کریز بڑھ رہا ہے کہ جسے پورا ملک ہر روزدیکھ رہا ہے۔ ورنہ عام پروگرامز یا روٹین شوز کے دیکھنے والے نہیں رہے۔ گویا ایسے پروگرامز چینلز کی ریٹنگ میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
کروڑوں کی اسپانسر شپ
دوسری اہم وجہ وہ اسپانسرز ہیں جنہیں جذبات، ہمدردی، آنسووٴں اور ہچکیوں کے درمیان اپنے اشتہارات لوگوں کی بہت بڑی تعداد تک پہنچانے کانیا موقع مل رہا ہے۔ بے شک وہ کروڑوں روپے انویسٹ کررہے ہیں ۔ایک جانب تمام افراد کے لئے افطار کے سامان اور کھانے پر بھاری رقم خرچ کرنا پڑرہی ہے تو دوسری جانب ٹی وی چینلز کو اشتہارات چلانے کے بھی پیسے دے رہے ہیں ۔ گویا انہیں ہر سیکنڈ پر لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑرہے ہیں۔
دیوہیکل اور انتہائی مہنگے سیٹس
ان پروگرامز کو جس انداز سے اور جس طرح کے سیٹس پر پیش کیا جارہا ہے وہ بھی کسی طور دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس وقت سب سے بڑا سیٹ جیو ٹی وی نے ”پہچان رمضان “ کے لئے تیار کرایا ہے۔اس سیٹ پر ابتدا میں 500افراد کی گنجائش رکھی گئی تھی مگر پروگرام کے معروف اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے مطابق اس وقت پروگرام میں ساڑھے سات سو افراد ایک ساتھ زوزانہ افطار کرتے ہیں۔ سیٹ پر جو ایکوریم تالاب کی شکل میں بنایا گیا ہے اس کایومیہ کرایہ ساٹھ سے ستر ہزار ہے جبکہ سیٹ پر ہرن، طوطے، مور اور دیگر دلکش جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔ پھر انگنت لائٹنگ جدید آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ سسٹم دیگر آلات و ساز وسامان روزانہ کی صفائی ، تزئین و آرائش یہ سب مل کر سیٹ پریومیہ کئی لاکھ روپے بنتے ہیں۔اس تالاب کو روزانہ تین ٹینکر تازہ پانی درکار ہوتا ہے۔
سہ پہر سے شروع ہوکر روزہ افطار ہونے تک چلنے والی رمضان ٹرانسمیشن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی معروف شخصیات بھی بطور مہمان شرکت کرتی ہیں ۔ ان میں مذہبی اسکالرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ یہ مذہبی اسکالر مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور پروگرام کے بیچ بیچ میں لوگوں کے سوالات اور دینی مسائل کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ اینکرز بھی مذہبی معاملات پر ہلکے پھلکے انداز میں بحث کرتے نظر آتے ہیں۔
جیو ٹی وی کے علاوہ اے آر وائی ڈیجیٹل بھی اسی قسم کا ایک شو کررہا ہے جس کے میزبان مایا خان اور ڈاکٹر شاہد مسعودہیں۔ پچھلے دنوں اس پروگرام میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے آن کیمرہ اسلام قبول کیا۔
ادھر ’ہم ٹی وی‘ سے نور الحسن اور مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی بھی ’نور رمضان ‘کے نام سے ایک پروگرام کررہے ہیں۔”ایکسپریس“ ٹی وی نے ایک طرف تو شاہد آفرید ی کو افطار شو کے لئے بک کیا ہوا تو دوسری جانب اسی گروپ کا ایک اور چینل’ہیرو‘ وینا ملک کا پروگرام ’استغفار‘پیش کررہا ہے۔
تنقیدی پہلو
پروگرام کے جہاں بہت سارے مثبت پہلو اس وقت موضوع بحث ہیں تووہیں کچھ ناقدین اسے تنقیدی نظر سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایک مذہبی اسکالر عبدالرحمن کا کہنا ہے ”اس طرح کے پروگراموں سے معاشرے میں ”مانگنے “ کاعنصر وسعت پارہا ہے۔ جو لوگ آٹھ یا دس ہزار روپے مہینہ کماتے ہیں انہیں بھی ٹی وی پر لاکر مدد مانگنا خود ان کو ”منگتا“بنارہا ہے ۔ اس طرح معاشرے سے سفید پوشی ختم ہوتی جائے گی اور لوگ مانگنے کو اچھا سمجھنے لگیں گے“
ایک اور ناقد حنا تبسم کا کہنا ہے ”جب سے یہ پروگرام شروع ہوئے ہیں سڑکوں پر مانگنے والوں کی تعداد کم اور ٹی وی چینلز پر زیادہ نظر آنے لگی ہے ۔ کوئی اپنے آپ کو یتیم خانے کا بتا رہا ہے تو کوئی بے آسرا۔ اسلام میں بے آسرااور بے گھر بزرگ شہریوں، زیادتیوں کا شکار بچوں اور اسی قسم کے دوسرے پسے ہوئے اور مجبور طبقے کے افراد کی مدد کرنے کے لئے اس طرح کہا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے مگر اب یہ سب ٹی وی پر آرہا ہے۔ گویا نیکیوں کی تشہیر ہورہی ہے۔ “
بھارتی چینلز پر پابندی
رمضان کی نشریات کو زیادہ سے زیادہ ویور شپ دینے کے لئے کیبل والوں نے تمام بھارتی چینلز کی نشریات پہلے یا دوسرے روزے سے ہیں دکھانا بند کر رکھی ہیں ۔ نارتھ ناظم آباد کے ایک کیبل آپریٹر تسلیم کا کہنا ہے کہ پیمرا نے انہیں بھارتی چینل بند کرنے کے لئے کہا ہے جبکہ کیبل آپریٹرز بعض علاقوں میں ٹکرز بھی چلارہے ہیں جن میں چینل بند کرنے کی ذمے داری پیمر ا پر عائد کی گئی ہے جبکہ پیمرا نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے۔