پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس قرار داد پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہے جس کے تحت یوکرین میں روسی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی بنا پر روس کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت معطل کر دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے روس کی رکنیت معطل کرنے کی قرارداد پر جمعرات کو ہونے والی ووٹنگ میں 93 ممالک نے قرارداد کے حق میں جب کہ 24 رکن ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ، پاکستان اور بھارت سمیت 58 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہے۔
دوسری جانب اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت معطل ہونے پر روس نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو ہر ممکن قانونی ذرائع سے اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔
عالمی تنظیم کی انسانی حقوق کونسل سے روس کی رکنیت معطل کرنے کی قرار داد پر پاکستان کے غیر حاضر ہونے کے بعد پاکستان کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ پاکستان کو روس یوکرین تنازع پر اصولی موقف اختیار کرنا چاہیے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت یوکرین پر روسی جارحیت سے متعلق اب تک ایک غیر جانبدار موقف اخیتار رکیے ہوئے ہے اور اسلام آباد اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے بات چیت پر زور دیتا آرہا ہے۔
حال ہی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب میں روس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک چھوٹے ملک پر روس کی جارحیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت روس کے صدر ولادیمیر پوٹن پر تنقید سے گریز کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار موقف اپنائے ہوئے ہے۔
جنرل باجوہ کے بیان کے بعد اسلام آباد کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں یہ بات زیر بحث ہے کہ پاکستان کو یوکرین کے معاملے میں ایک واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔
یوکرین تنازع پر اصولی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزا ز چودھری کہتے ہیں کہ یوکرین پر روسی کےحملے کے بعد پاکستان میں سرکاری حلقوں کی رائے منقسم تھی۔ انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اعزاز چودھری کا کہنا تھا کہ ایک حلقے کا خیال تھا کہ پاکستان کو اس معاملے پر غیر جانبدار موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ روس کے ساتھ تعلقات متاثر نہ ہوں۔ ان کے بقول دوسری جانب یہ رائے بھی موجود تھی کہ ماضی میں پاکستان اورا مریکہ کے قریبی تعلقات رہے ہیں اور امریکہ اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جب کہ روس کے ساتھ پاکستان کی باہمی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے ۔
پاکستان میں ایک عمومی رائے یہ بھی تھی کہ پاکستان کو یوکرین کے تنازع پر عالمی رائے عامہ کی اکثریت کے خلاف موقف اختیار کرکے امریکہ اور یورپ کو ناراضی کا موقع نہیں دینا چاہیے جو پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔
اعزا ز چودھری کہتے ہیں کہ یوکرین کے معاملے پر کسی ملک کی طرفداری کی بجائے پاکستان کوایک اصولی موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ روس نے ایک آزاد ملک پر حملہ کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ ماضی میں پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ ہر ایک ملک کی خود مختاری او ر سالمیت کا احترام ہونا چاہیے۔
اعزاز چودھری مزید کہتے ہیں کہ یوکرین کے معاملے پر بھی پاکستان کو یہی موقف اختیار کرتے ہوئے روس سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ یوکرین میں فوجی آپریشن کو بندکرے اور فریقین یہ معاملہ بات چیت سے حل کریں۔
پاکستان کی حکومت نے فی الحال ایساکوئی عندیہ نہیں دیا ہے کی وہ یوکرین کے تنازع پر اپنے موقف کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے ۔ لیکن تجزیہ کاروں اور اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اگرروس یوکرین جنگ طوالت اختیار کرتی ہے تو پاکستان کے لیے اس معاملے میں غیر جانبدار رہنا شاید مشکل ہو جائے۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ یوکرین کے معاملے پر اگر پاکستان غیر جانبدار موقف پر قائم رہتا ہے تو ان کے خیال میں شاید مستقبل میں یہ بات پاکستان کے لیے سود مند نہ ہو ۔ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت ترجیحی تجارت کی سہولت فراہم کر رکھی ہے۔ دوسری جانب امریکہ نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے بلکہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف پر اثررسوخ کی بنا پر پاکستان لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔حفیط پاشا کہتے ہیں کہ اس ناتے پاکستان کو مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کے پیش نظر یوکرین کے معاملے پر اصولی موقف اخیتار کرنا چاہیے۔
اگرچہ گزشتہ چند سالوں کے دورن پاکستان اور روس کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں اور روس پاکستان میں گیس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے لیکن حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ جب تک روس پرتعزیرات عائد رہیں گی اس وقت تک شاید اس طرف پیش رفت ممکن نہ ہوسکے۔
حفیظ پاشا کا کہتے ہیں کہ تجارتی اور اقتصادی مفادات اپنی جگہ لیکن اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہےتو اس پر اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے اسے ٖٖغلط قرار دینا چاہیے۔
پاکستان کی کاروباری اور تاجر بردار ی میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر پاکستان کے غیر جانبدار موقف کی وجہ سے شاید پاکستان کے تجارتی تعلقات مغربی ممالک سے متاثر ہوسکتے ہیں جب پاکستان کی 60 سے 65 فیصد بیرونی تجارتی یورپی یونین ،امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ احسان ملک کہتے ہیں کہ امریکہ او ریورپی یونین پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں او ر اگر پاکستانی مصنوعات معیار ی ہوں گی تو شاید ان کے طلب امریکہ اور مغربی میں موجود رہے گی ۔ اس لیے ان کے بقول اس بات کا امکان کم ہے کہ صرف پاکستان کے یوکرین کے معاملے پر غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے پاکستان کی مغربی ممالک کے ساتھ تجارت پر کوئی منفی اثر پڑے گا۔