حکومت کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعے کو کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق اعلان کا عندیہ بھی دیا ہے۔
آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق عدالتی فیصلہ اسمبلی کی کارروائی سمیت وزیر اعظم اور صدر کے اقدامات سے متعلق آئندہ کی صورتِ حال کے تمام پہلوؤں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ اس لیے کسی غیر متوقع یا 'سپرائز' کی گنجائش نظر نہیں آتی۔
تاہم حکومت کے آئندہ کے ممکنہ اقدامات پر ماہرین قانون کی روشنی میں اپنی اپنی آرا رکھتے ہیں۔
کیا تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر ہوسکتی ہے؟
سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی تین اپریل کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے تک اجلاس جاری رکھنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
آئینِ پاکستان کے مطابق وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر سات روز کے اندر قرار داد پر رائے شماری کا پابند ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف 28 مارچ کو ایوان میں عدمِ اعتماد کی قرار داد پیش کی جس پر سات روز کے اندر ووٹنگ نہ ہو سکی۔
بعدازاں تین اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کی رولنگ نے نئے بحران کو جنم دیا۔
اس بارے میں سندھ بار کونسل کے رکن ایڈووکیٹ سید حیدر امام رضوی کہتے ہیں سپریم کورٹ نے چوں کہ تین اپریل سے پہلے کی صورت حال کو بحال کردیاہے اور واضح طور پر تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری کے احکامات دیے ہیں اس لیے تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد کے غیر مؤثر ہونے کا سوال سرے ہی سے ختم ہوگیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا عدالتی فیصلے میں وضاحت کے ساتھ تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری، اجلاس کا وقت اور دورانیہ بھی طے کردیا گیا ہے جس کے بعد اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی اور اگر ایسا کوئی اقدام کیا بھی جاتا ہے تو ایسی صورت میں واضح عدالتی احکامات کی وجہ سے توہینِ عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
کیا اسمبلیاں دوبارہ تحلیل ہوسکتی ہیں؟
قانونی ماہر بیرسٹر شہاب اوستو کہتے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیوں کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اس لیے اب وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز صدر کو دوبارہ بھجوانے کا آئینی اختیار نہیں رکھتے۔
لیکن ماضی میں اس کی مثال ملتی ہے۔ 28 مئی 1993 کو اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب منظور وٹو نے تحریکِ عدم اعتماد کوناکام بنانے کے لیے پہلے اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز گورنر چوہدری الطاف حسین کو بھجوائی تھی جس پر گورنر نے عمل درآمد کے احکامات جاری کردیے تھے۔
معروف قانون دان حامد خان کی کتاب 'جوڈیشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان' کے مطابق پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آچکی تھی اس لیے وہ اسمبلی تحلیل کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
وزیرِ اعلیٰ منظور وٹو نے عدالت میں یہ جواز پیش کیا تھا کہ وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کا نوٹی فکیشن جاری ہونے سے قبل ہی گورنر کو ارسال کرچکے تھے۔ لیکن عدالت میں وہ اپنا یہ دعویٰ درست ثابت نہیں کرسکے تھے۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی وزیرِ اعلیٰ منظور وٹو نے اسمبلی توڑنے کی تجویز گورنر کو ارسال کی جس پر گورنر چوہدری الطاف نے دوبارہ اسمبلی توڑنے کا حکم جاری کیا۔ گورنر کے اس اقدام کے بعد پنجاب میں آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے صدارتی حکم نامے کے بعد از خود نوٹس کی پہلی ہی سماعت میں صدر اور وزیر اعظم کو عدالتی حکم نامے کا پابند بنایا تھا۔ ان کے بقول اعلیٰ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں بھی تین اپریل 2022 کا یہ آرڈر برقرار رکھا ہے۔
جسٹس (ر) رشید اے رضوی کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مؤثر ہوچکی ہے اس لیے آئین کے آرٹیکل 58 ایک کے تحت وہ اب صدر کو اسمبلی توڑنے کی تجویز ارسال نہیں کرسکتے۔ ان کے پاس عدالتی حکم پر عمل درآمد روکنے کے لیے کسی اقدام کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ان کے بقول اب عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے کے بعد ہی وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدر کو بھیج سکتے ہیں۔
اگر بڑی تعداد میں استعفی آجائیں؟
جسٹس (ر) رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی میں 172 ارکان کی عددی حمایت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک یا قائدِ ایوان کے انتخاب میں جو بھی 172 کا یہ نمبر حاصل کرلیتا ہے کامیاب قرار پائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اسمبلی کے 172 ارکان یعنی 51 فی صد ارکان مستعفی ہوجائیں تو ایسی صورت میں مشکل پیش آسکتی ہے۔
بیرسٹر شہاب اوستو کے مطابق استعفے دینے کا آپشن تو ہر وقت کھلا ہے لیکن موجودہ صورتِ حال میں بڑی تعداد میں استعفوں سے بھی عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی اور حکومتی ارکان کے استعفوں کی صورت میں عددی صورتِ حال بھی زیادہ تبدیل نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ارکان کے استعفوں کی صورت میں ان کی منظوری کا ایک طویل عمل ہے جس میں اسپیکر فرداً فرداً ارکان کو اپنے چیمبر میں بلا کر استعفوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے بعد الیکشن کمیشن کو ان کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کے لیے کہتا ہے۔
شہاب اوستو کے مطابق اگر حکومتی ارکان استعفیٰ دے بھی دیتے ہیں تو اس کی منظوری کا عمل اتنا طویل ہے کہ اس دوران عدم اعتماد کی تحریک پر عمل درآمد ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول مستعفی ہونے والوں کی نشستیں بھی اسی وقت خالی تصور ہوں گی جب ان کے استعفوں سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن جاری ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں پہلے ہی یہ کہہ دیا ہے کہ وہ آئندہ سات ماہ تک انتخابات نہیں کراسکتے تو ایسی صورت میں 140 یا اس سے زیادہ استعفوں کے بعد خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانا کس طرح ممکن ہوگا۔
صدر، وزیرِ اعظم، ڈپٹی اسپیکر کے خلاف کارروائی؟
سپریم کورٹ میں عدالت نے رولنگ کے ذریعے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس رولنگ کے بعد اسمبلیوں کی تحلیل، نگراں حکومت کے قیام اور نئے انتخابات سے متعلق وزیر اعظم اور صدر کے اقدامات کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔
ایسی صورت میں کیا ڈپٹی اسپیکر ، صدر، وزیرِ اعظم، وزیرِ قانون یا ان اقدامات اور فیصلوں میں شامل دیگر عہدے داران کے خلاف مستقبل میں کوئی کارروائی ہوسکتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں رکن سندھ بار کونسل کے رکن سید حیدر امام رضوی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مختصر حکم نامہ جاری کیا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہی کسی کارروائی سے متعلق تعین ہوسکتا ہے۔
ان کے بقول سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فی الوقت یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر نئی حکومت آتی ہے تو اس کے پاس ڈپٹی اسپیکر کے خلاف آئندہ کارروائی کے لیے مواد مل گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2007 میں جنرل پرویز مشرف کی نافذ کی گئی ایمرجنسی کو 2009 کے سپریم کورٹ کے 14 رکنی بینچ نے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ بنا اور اسپیشل کورٹ نے انہیں اس میں سزا سنائی۔ اسی طرح حالیہ کیس میں بھی آئندہ آنے والی حکومت کو کارروائی کے لیے مواد مل گیا ہے۔
حیدر امام رضوی کا کہنا تھا کہ مشرف کیس میں اگرچہ لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو معطل کردیا تھا جس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔
بیرسٹر شہاب اوستو کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم میں ڈپٹی اسپیکر، وزیرِ اعظم اور صدر کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا ہے لیکن اس میں اس بدنیتی کو ثابت کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوگا اور امکان یہی ہے کہ عدالت اس سے گریز کرے گی۔
قانون دان بیرسٹر سالار خان کہتے ہیں "ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دینے کے معاملے میں کچھ سنسنی پائی جاتی ہے کہ یہ آئین سے غداری ہے اور اس پر آرٹیکل چھ لگ سکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ آئین کی اس درجے کی خلاف ورزی نہیں جس پر سنگین غداری کا اطلاق ہوتا ہو یا اسے آئین شکنی سے تعبیر کیا جاسکے۔"
ان کے بقول اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر صدر کوئی آرڈیننس جاری کرتا ہے اور بعد میں عدالت اسے غیر آئینی قرار دیتی ہے تو اس اقدام کو کالعدم کرنے کے بعد صدر یا کسی آئینی عہدے دار کے خلاف کوئی اضافی کارروائی نہیں جاتی۔
ان کے مطابق بعض مرتبہ بدنیتی ثابت ہونے کے باوجود آئینی معاملات میں عدالت صرف اقدام کی نوعیت کا تعین کرنے سے آگے نہیں جاتی اور آرٹیکل چھ سے متعلق کارروائی وفاقی حکومت اور پارلیمان کا استحقا ق ہے۔ اگر وہ چاہیں تو مستقبل میں اس پر کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔
سازش کی تحقیقات کا کیا ہوگا؟
ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کے لیے حکومت نے مبینہ غیر ملکی سازش کو بنیاد بنایا تھا اور عدالت میں اس حوالےسے حکومتی وکلا نے دلائل بھی دیے تھے۔ اس پہلو کی مزید تحقیق کے حوالے سے بیرسٹر سالار خان کا کہنا ہے کہ یہ تفصیلی فیصلے کے بعد ہی واضح ہوگا کہ عدالت اس معاملے میں کتنا جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ عدالت نے خود کو اس لیے صرف رولنگ کی آئینی حیثیت تک محدود رکھا ہے، اگر یہ نظیر قائم کردی جاتی تو کل کو اسپیکر قومی مفاد کی بنیاد پر کسی بھی قانون سازی کو روکنے کے لیے رولنگ جاری کرسکتا تھا اور عدالت نے اس دروازے کو بند کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے حکومت سے یہ دریافت بھی کیا تھا کہ کیا وہ منٹس آف دی میٹنگ لائے ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ تفصیلی فیصلے میں اس پر کوئی بات کی جائے۔
بیرسٹر شہاب اوستو کا کہنا ہے کہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت نے آئین کی شق 184 تین کے تحت از خود نوٹس لیا تھا اور خود کو اس سوال تک محدود رکھا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے مطابق تھی یا نہیں۔ باقی فریقوں کی درخواستیں بعد میں سامنے آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ مبینہ سازش کے جواز پر بھی بات نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت پہلے ہی واضح کرچکی تھی کہ وہ پالیسی سازی اور بین الاقوامی تعلقات سے متعلقہ مسائل میں نہیں پڑے گی۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت طے کرنے کے لیے جج صاحبان کو اس مواد کا بھی جائزہ لینا چاہیے جس کی بنیاد پر یہ رولنگ جاری کی گئی۔
عدالتی فیصلے پر نظر ثانی ہوسکتی ہے؟
ایڈووکیٹ حیدر امام رضوی کا کہنا ہے کہ نظرِ ثانی کا دروازہ تو کھلا رہتا ہے لیکن یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ ابھی مختصر فیصلہ ہی سامنے آیا ہے۔ اگر عدالت سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی جاتی ہے تو ممکن ہے کہ اس میں کئی ہفتے بھی لگ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جن احکامات کو کالعدم قرار دیا ہے انہیں دینے والے افراد اگر اپنے عہدوں پر ہی نہیں رہیں گے تو نظر ثانی کی اپیل غیر مؤثر ہوجائے گی یا اس کی افادیت باقی نہیں رہے گی۔
تاہم بیرسٹر سالار خان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کا حق برقرار ہے اور بالفرض اس ایسا ہونے کی صورت میں موجودہ فیصلہ تبدیل ہوتا ہے تو جس طرح عدالت نے تین اپریل کے بعد کے اقدامات واپس کردیے گئے، نظر ثانی کی صورت میں حالیہ فیصلہ بدلنے پر بھی ایسا ہوسکتا ہے لیکن ایسی کوئی ممکنہ صورتِ حال قرینِ قیاس نظر نہیں آتی۔
پارٹی بدلنے والے افراد کے خلاف کارروائی ہوگی ؟
بیرسٹر سالار خان کہتے ہیں عدالت نے از خود نوٹس میں تحریکِ عدم اعتماد میں پارٹی مؤقف کے خلاف جانے والے ارکانِ اسمبلی کا معاملہ بھی نتھی کردیا تھا۔تاہم فیصلے کے بعد یہ سوال برقرار ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت وفاداری تبدیل کرنے کی صورت میں ارکان کے مستقبل کا کیا ہو گا۔
سالار خان کا خیال ہے کہ جب عدالت نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے کو اپنی سماعت میں خود شامل کیا تھا تو اس پر بھی رولنگ دینی چاہیے تھی۔اور ممکنہ طور پر عدالت نے اس معاملے میں کوئی واضح رولنگ اس لیے بھی نہیں دی کہ اس کے بعد آرٹیکل 69 کا اہم سوال پیدا ہوسکتا ہے۔
یہ آرٹیکل پارلیمان کی روز مرہ کارروائی کو عدالتی دائرہ اختیار سے استثنیٰ دیتا ہے۔ جب کہ اس وقت پارلیمنٹ میں پہلے ہی عدم اعتماد پر آئین کے مطابق کارروائی تعطل کا شکار ہے۔ اس لیے مزید کسی آئینی پیچیدگی سے بچنے کے لیے ممکنہ طور پر یہ راستہ اختیار کیا گیا ہے۔
ان کے بقول اٹارنی جنرل خالد جاوید نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر خود ہی یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس کی عمومی تشریح چاہتے ہیں اور سپریم کورٹ میں کارروائی کے دوران انہوں نے اس پر اصرار بھی نہیں کیا۔