زرعی یونیوسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ’ ویلنٹائن ڈے‘ منانے سے مشرقی روایات کو فروغ ملتا ہے اور وہ کسی صورت جامعہ کے طلبا اور طالبات کو ’ویلنٹائنز ڈے ‘منانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم مشرقی ثقافت سے دور اور مغربی روایات کے قریب ہوتی جا رہی ہےجو غلط ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ بطور اساتذہ طلبا و طالبات کی تربیت کرنا ہمارا فرض ہے۔ ویلنٹائنز ڈے کی ہمارے کلچر میں کوئی گنجائش نہیں ۔‘
یونیورسٹی کی ایک طالبہ اذکا جلیل نے اِس فیصلے کو سراہتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، اسے پوری یونیورسٹی میں سراہا گیا ہے۔ویلنٹائنز ڈے غیر ملکی ثقافت کا حصہ ہے، ہماری ثقافت اور دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔‘
تاہم ایک طالبہ زیب النساء نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ’مجھےکسی کی بہن نہیں بننا اور وہ کیوں ’سسٹرز ڈے’ منائیں؟ زیب النسا کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ لڑکیوں کے لئے لڑکوں کو تو گاؤن، دوپٹے اور اسکارف بطور تحفہ دے گی لیکن کیا لڑکوں کو بھی چودہ فروری کو تسبیح، ٹوپی اور مسواک کا تحفہ دے گی؟ـ
ان کا یہ بھی کہنا تھا ’آپ نے ویلنٹائنز ڈے نہیں منانا تو نہ منائیں لیکن اِسے سسٹرز ڈے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ مذہب ہے کلچر ہے یا جو بھی ہے آپ کسی کو روک نہیں سکتے، یہ اُس کی ذاتی زندگی ہے۔ ہم یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، باشعور ہیں ہم پر فیصلے تھوپنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ‘
زرعی یونیوسٹی فیصل آباد کے ترجمان قمر بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ مخیر حضرات کی مدد سے چودہ ہزار سے زائد ڈوپٹے اور اسکارف تیار کرا رہی ہے جنہیں رواں سال چودہ فروری کو ویلنٹائنز ڈے پر جامعہ کی طالبات کو دیا جائے گا۔‘
سنہ دو ہزار سترہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیر نے بارہ فروری سنہ دو ہزار سترہ میں ویلنٹائنز ڈے کو عوامی مقامات اور سرکاری دفاتر میں نہ مناننے سے متعلق فیصلہ جاری کیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ ویلنٹائنز ڈے کی تشہیر نہ کرے۔
اس سے ایک سال قبل پاکستان کے اُس وقت کے صدر ممنون حسین نے بھی ویلنٹائنز ڈے سے متعلق کہا تھا کہ اِس دن کا مسلم روایات سے کوئی تعلق نہیں۔