پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسی بھی خطے کے لیے باقی دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اقتصادی ترقی ممکن نہیں، اس لیے اسلامی ممالک کا عالمی سطح پر کردار انتہائی اہم ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کو پائیدار اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔
عالمی اسلامک اقتصادی فورم کے لندن میں جاری اجلاس کی منگل کو ہونے والی افتتاحی تقریب سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے توانائی، پانی، تجارت، بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی پر مسلمان ممالک کو توجہ دینی چاہیئے۔
پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسی بھی خطے کے لیے باقی دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اقتصادی ترقی ممکن نہیں، اس لیے اسلامی ممالک کا عالمی سطح پر کردار انتہائی اہم ہے۔
عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس سے قبل منگل کو وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کا ملک نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ تمام فریقین بشمول طالبان کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ حکومت شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے اور انھوں نے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو ذمہ داری سونپی ہے اور اُن کے بقول اس ضمن میں کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
’’بات چیت ابھی شروع نہیں ہوئی کیونکہ جب بھی بات چیت کرتے ہیں تو کوئی سیٹ بیک (رکاوٹ کا سامنا) ہو جاتا ہے ... ہماری پوری کوشش ہے کہ اس سلسلے کو تیز کیا جائے۔‘‘
پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے اور امن و امان کے لیے گزشتہ ماہ حکومت کی طرف سے بلائی گئی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
لیکن تاحال مذاکرات کے لیے واضح حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس میں افغان صدر حامد کرزئی بھی شریک ہیں، جہاں پاکستان، افغانستان اور برطانیہ کا سہ فریقی اجلاس بھی ہونا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف، اُن کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور افغان صدر حامد کرزئی افغانستان میں مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پیش رفت کا جائزہ اور مستقبل کی حکمت عملی پر بات چیت کریں گے۔
اس سہ فریقی اجلاس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم نے ایک بار پھر افغانستان میں امن و استحکام کو اسلام آباد کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کو وہاں کے سیاسی عمل میں شریک ہونا چاہیے۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ بات چیت کریں، اعلیٰ امن کونسل کے ساتھ ملیں، بیٹھیں تاکہ افغانستان کے اندر یک جہتی آئے، افغانستان کے سب لوگ شامل ہوں اس عمل میں تو افغانستان میں استحکام آئے گا جو کہ پاکستان کے استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔‘‘
افغانستان سے 2014ء کے اواخر میں امریکہ کی زیرِ قیادت نیٹو افواج کے انخلا اور وہاں مصالحتی عمل کی کامیابی میں پاکستان کے کردار کو کلیدی قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے ہاں قید 34 افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے جن میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے سابق نائب ملا عبد الغنی برادر بھی شامل ہیں۔
عالمی اسلامک اقتصادی فورم کے لندن میں جاری اجلاس کی منگل کو ہونے والی افتتاحی تقریب سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے توانائی، پانی، تجارت، بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی پر مسلمان ممالک کو توجہ دینی چاہیئے۔
پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسی بھی خطے کے لیے باقی دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اقتصادی ترقی ممکن نہیں، اس لیے اسلامی ممالک کا عالمی سطح پر کردار انتہائی اہم ہے۔
عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس سے قبل منگل کو وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کا ملک نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ تمام فریقین بشمول طالبان کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ حکومت شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے اور انھوں نے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو ذمہ داری سونپی ہے اور اُن کے بقول اس ضمن میں کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
’’بات چیت ابھی شروع نہیں ہوئی کیونکہ جب بھی بات چیت کرتے ہیں تو کوئی سیٹ بیک (رکاوٹ کا سامنا) ہو جاتا ہے ... ہماری پوری کوشش ہے کہ اس سلسلے کو تیز کیا جائے۔‘‘
پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے اور امن و امان کے لیے گزشتہ ماہ حکومت کی طرف سے بلائی گئی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
لیکن تاحال مذاکرات کے لیے واضح حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس میں افغان صدر حامد کرزئی بھی شریک ہیں، جہاں پاکستان، افغانستان اور برطانیہ کا سہ فریقی اجلاس بھی ہونا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف، اُن کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور افغان صدر حامد کرزئی افغانستان میں مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پیش رفت کا جائزہ اور مستقبل کی حکمت عملی پر بات چیت کریں گے۔
اس سہ فریقی اجلاس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم نے ایک بار پھر افغانستان میں امن و استحکام کو اسلام آباد کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کو وہاں کے سیاسی عمل میں شریک ہونا چاہیے۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ بات چیت کریں، اعلیٰ امن کونسل کے ساتھ ملیں، بیٹھیں تاکہ افغانستان کے اندر یک جہتی آئے، افغانستان کے سب لوگ شامل ہوں اس عمل میں تو افغانستان میں استحکام آئے گا جو کہ پاکستان کے استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔‘‘
افغانستان سے 2014ء کے اواخر میں امریکہ کی زیرِ قیادت نیٹو افواج کے انخلا اور وہاں مصالحتی عمل کی کامیابی میں پاکستان کے کردار کو کلیدی قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے ہاں قید 34 افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے جن میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے سابق نائب ملا عبد الغنی برادر بھی شامل ہیں۔