اسلام آباد —
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف لندن میں منگل کو عالمی اسلامک فورم کے اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کریں گے۔
اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے وہ پیر کی دوپہر اسلام آباد سے برطانیہ کے لیے روانہ ہوئے۔
عالمی اسلامک فورم کا یہ نواں اجلاس ہے اور اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا اس نوعیت کا یورپ میں یہ پہلا اجلاس ہو گا، جس میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی شرکت کریں گے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق نواز شریف اجلاس میں شریک رہنماؤں کو اپنی حکومت کی اقتصادی ترجیحات بالخصوص معیشت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات سے آگاہ کریں گے۔
بیان میں کہا گیا کہ اس دورے میں اسلامی ممالک کے مابین اقتصادی شعبے میں تعاون بڑھانے کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دستیاب موقعوں سے بھی شرکا کو آگاہ کریں گے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اس اجلاس کے موقع پر برطانیہ، پاکستان اور افغانستان کی قیادت کا سہ فریقی اجلاس بھی ہو گا۔
وزیر اعظم نواز شریف، اُن کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور افغان صدر حامد کرزئی افغانستان میں طالبان سے مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ برطانیہ میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان بعض معاملات پر عدم اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
’’پاکستان اور افغانستان کے درمیان شکوک و شبہات کافی ہیں ... تو برطانوی وزیر اعظم کی کوشش ہو گی کہ ان کو کم کیا جا سکے اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون بڑھے۔‘‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ 2014ء کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان کے تناظر میں امریکہ اور برطانیہ کی یہ کوشش ہے کہ وہاں مصالحت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے جس میں اُن کے بقول پاکستان کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے اسلام آباد کابل حکومت کی درخواست پر افغان طالبان کے سابق نائب رہنما ملا عبد الغنی برادر سمیت 34 افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے، اور وزیر اعظم نواز شریف سمیت دیگر اعلٰی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے مصالحتی عمل کی کامیابی کے لیے ہر ممکن مدد کرتا رہے گا۔
اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے وہ پیر کی دوپہر اسلام آباد سے برطانیہ کے لیے روانہ ہوئے۔
عالمی اسلامک فورم کا یہ نواں اجلاس ہے اور اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا اس نوعیت کا یورپ میں یہ پہلا اجلاس ہو گا، جس میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی شرکت کریں گے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق نواز شریف اجلاس میں شریک رہنماؤں کو اپنی حکومت کی اقتصادی ترجیحات بالخصوص معیشت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات سے آگاہ کریں گے۔
بیان میں کہا گیا کہ اس دورے میں اسلامی ممالک کے مابین اقتصادی شعبے میں تعاون بڑھانے کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دستیاب موقعوں سے بھی شرکا کو آگاہ کریں گے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اس اجلاس کے موقع پر برطانیہ، پاکستان اور افغانستان کی قیادت کا سہ فریقی اجلاس بھی ہو گا۔
وزیر اعظم نواز شریف، اُن کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور افغان صدر حامد کرزئی افغانستان میں طالبان سے مصالحت کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ برطانیہ میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان بعض معاملات پر عدم اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
’’پاکستان اور افغانستان کے درمیان شکوک و شبہات کافی ہیں ... تو برطانوی وزیر اعظم کی کوشش ہو گی کہ ان کو کم کیا جا سکے اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون بڑھے۔‘‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ 2014ء کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان کے تناظر میں امریکہ اور برطانیہ کی یہ کوشش ہے کہ وہاں مصالحت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے جس میں اُن کے بقول پاکستان کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے اسلام آباد کابل حکومت کی درخواست پر افغان طالبان کے سابق نائب رہنما ملا عبد الغنی برادر سمیت 34 افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے، اور وزیر اعظم نواز شریف سمیت دیگر اعلٰی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے مصالحتی عمل کی کامیابی کے لیے ہر ممکن مدد کرتا رہے گا۔